رومیل الیاس: ریاست کی ملکیت کے اداروں کو بیچنے کے ذمہ دار عبدالعلیم خان نے مشورہ دیا ہے کہ سارے صوبے مل کر پی آئی اے کے شئیر خرید لیں اور اسے منافع بخش ادارہ بنانے کی کوشش کریں۔ عبدالعلیم خان نے اس بات کے ساتھ یہ بھی کہا کہ پی آئی اے کو بیچنا میری ذمہ داری ہے، پی آئی اے بیچنے میں کوئی کوتاہی ہوئی اس کا ذمہ دار میں ہوں۔ پی آئی اے قومی اثاثہ ہے، اسے اونے پونے داموں نہیں بیچ سکتا، مجھے کاروبار مت سکھائیں، مجھے کاروبار کرنا آتا ہے۔ عبدالعلیم خان نے یہ باتیں لاہور میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہیں۔
علیم خان نے کہا کہ کہ پی آئی اے کی نج کاری کے لئے پروسیس میں شریک رہا ہوں، کہیں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ پی آئی اے کو اونے پونے داموں نہیں بیچیں گے۔ کے پی حکومت کی طرف سے کہا گیا ہے کہ ہم پی آئی اے کو خریدنا چاہتے ہیں، پنجاب حکومت نے نہیں کہا لیکن میں نے میاں صاؓحب کا بیان سنا ہے۔ اگر صوبوں کی حکومت مل کے خریدنا چاہتی ہیں تو مجھے کیا اعتراض ہے۔ اس کو سندھ حکومت، بلوچستان حکومت، کے پی حکومت پنجاب حکومت مل کے لینا چاہتی ہیں تو ہمیں کیا اعتراض ہے۔ اس کے لئے پروفیشنل مینیجمنٹ لے کے آئیں، باہر سے سی ای او لے کے آئیں۔
سوالات کے جواب میں عبدالعلیم خان نے کہا، پتا کیا جائے پی آئی اے کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے۔ میرے حلف اٹھانے سے پہلے قومی ایئرلائن کا خسارہ830ارب تھا۔ میرے حلف اٹھانے سے پہلے ہی نگراں حکومت کے دور میں پی آئی اے کی نجکاری کا فریم ورک طے ہو چکا تھا ، اس فریم ورک میں میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔پہلے سے طے شدہ فریم ورک کے مطابق پی آئی اے کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ پی آئی اے بیچنے میں کوئی کوتاہی ہوئی تو اس کا ذمہ دار میں ہوں گا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا افسوس ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کےذمہ دار بھی نجکاری کے حوالے سے باتیں کر رہے ہیں۔سی پیک پر ایک سو سے زائد منصوبوں پر کام جاری ہے۔
عبدالعلیم خان نے سوالات کے جواب میں کہا، میری ذمہ داری پی آئی اے ٹھیک کرنا نہیں، میری ذمہ داری اس کو بیچنا ہے۔ پی آئی اے کا خسارہ میرا پیدا کردہ نہیں میرا اس میں کوئی کردار نہیں، پتہ کیا جائے کہ پی آئی اے کی تباہی کا ذمہ دار کون ہے۔ مجھے ان سب سے بہتر کام کرنا آتا ہے۔
وزیر برائے نجکاری عبداعلیم خان نے کہا کہ بہت عرصہ ہوا میڈیا اور عوام سے بات نہیں ہوئی تھی، آج کی پریس کانفرنس پی آئی اے کے حوالے سے بات کرنے کے لئے ہے، مارچ میں جب حلف اٹھایا تو پی آئی اے کن حالات میں تھا یہ بتانا چاہتا ہوں، حلف اٹھانے سے 6 ماہ قبل نگراں دور میں پی آئی اے کے حوالے سے کچھ اقدامات اٹھائے گئے، پی آئی اے کا خسارہ 830 ارب روپے تھا، میرے پاس پی آئی اے کی نجکاری کا جو فریم ورک تھا اس میں میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا تھا۔میرے دور میں جو اقدامات ہوئے وہ نجکاری کے فریم ورک میں رہتے ہوئے اٹھائے گئے، میری ذمہ داری پی آئی اے ٹھیک کرنے کی نہیں اسکی نجکاری کرنے کی ہے۔
میں پی آئی اے خریدنے والوں کی فہرست میں شامل نہیں ہوں۔
وفاقی وزیر برائے نجکاری نے کہا کہ جو خود نجکاری کے وزیر رہ چکے وہ آج مجھے مشورے دے رہے ہیں، کہا جا رہا ہے کہ عبداعلیم خان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہا، مجھ سے پہلے نجکاری کے 25 وزیر رہ چکے ہیں اگر ان سب نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تو آج یہ وقت نہ آتا، پی آئی اے قوم کا اثاثہ ہے۔ قانون سے ہٹ کر نجکاری نہیں ہوسکتی۔
عبداعلیم خان نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری والے دن میں سعودی عرب میں پاکستان میں سرمایہ کاری لانے کے لئے ایک اجلاس میں شریک تھا۔ پی آئی اے کے لئے کے پی حکومت نے کہا کہ ہم خریدنا چاہتے ہیں،اگر پنجاب حکومت بھی پی آئی اے کو خریدنے کی خواہشمند ہے تو اچھی بات ہے۔ میں تو چاہتا ہوں تمام صوبے مل کر پی آئی اے کو خرید لیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم دنیا کی پانچویں بڑی قوم ہیں پی آئی اے ایک منافع بخش ادارہ ثابت ہو سکتا ہے، مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ پی آئی اے کی حالت خراب کرنے والے آج باتیں کر رہے ہیں، کونسی ایسی جماعت ہے جو حکومت میں نہ آئی ہو اور پی آئی اے کی تباہی میں شامل نہ ہو۔