امانت گشکوری:سپریم کورٹ میں سابق ڈکٹیٹر پرویز مشرف کےخلاف فیصلہ دینے والی خصوصی عدالت سے متعلق اپیلیں سماعت کیلئے مقرر کر دی گئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں چار رکنی لارجر بنچ 10 نومبر کو سماعت کرے گا۔ بنچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ شامل ہیں۔
عدالت نے تمام فریقین کو نوٹسز جاری کر دیئے۔
پرویز مشرف نے خصوصی عدالت کے فیصلے کےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی۔
پرویز مشرف کو سزا سنانے والی خصوصی عدالت کو غیر آئینی قرار دینے کےخلاف بھی اپیلیں دائر ہوئی تھیں۔
سترہ دسمبر 2019 کو سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی اور سنگین غداری کے مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے انھیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
پرویز مشرف پر آئین شکنی کا الزام تین نومبر 2007 کو آئین کی معطلی اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے حوالے سے عائد کیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کی منظوری سے اس الزام کے تحت سنگین غداری کا مقدمہ سننے کے لئے خصوصی عدالت تشکیل دی گئی تھی۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع تھا کہ کسی شخص کو آئین شکنی کے جرم میں سزا سنائی گئی۔
جسٹس سیٹھ وقار، جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت نے اپنا مختصر فیصلہ منگل 17 دسمبر 2019 کی صبح سنایا۔
یہ ایک اکثریتی فیصلہ تھا اور بینچ کے تین ارکان میں سے دو نے سزائے موت دینے کا فیصلہ کیا جبکہ ایک رکن نے اس سے اختلاف کیا۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ ثابت ہوتا ہے اور آئین کے آرٹیکل چھ کے تحت انھیں سزائے موت سنائی جاتی ہے۔
آئین کی شق نمبر چھ کے مطابق وہ شخص جس نے 23 مارچ 1956 کے بعد آئین توڑا ہو یا اس کے خلاف سازش کی ہو ، اس کے عمل کو سنگین غداری قرار دیا جائے گا اور اس کو عمر قید یا سزائے موت سنائی جائے گی۔
پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سابق وزیراعظم نوازشریف کی مئی 2013 کے الیکشن کے نتیجہ میں بننے والی حکومت کےدوران دائر کیا گیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی، ججز بدلتے رہے، جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل، جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے یہ مقدمہ سنا اور سنگین غداری کیس خصوصی عدالت میں 6 سال تک چلتا رہا جس کے دوران مجموعی طور پر 125 سماعتیں ہوئیں۔
31 مارچ 2016 کو فرد جرم عائد ہونے کے موقع پر پرویز مشرف عدالت میں موجود تھے مگر پھر بیماری کی وجہ سے پرویز مشرف ملک سے باہر چلےگئے اور پھر کبھی واپس نہ آئے۔
عدالت نے کئی بار پرویز مشرف کو پیش ہونےکا موقع فراہم کیا جس کے بعد خصوصی عدالت نے 19 جون 2016 کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دے دیا، اس سے قبل خصوصی عدالت میں دوران سماعت استغاثہ نے پرویز مشرف کے ساتھ سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامد اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کو بطور شریک ملزم شامل کرنے کی درخواست کی جو عدالت نے مسترد کر دی اور ریمارکس دیےکہ اس پر سپریم کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے۔
پرویز مشرف کے وکیل رضا بشیر نے ایک بار پھر پرویز مشرف کیلئے دفعہ342 کا بیان دینےکا موقع مانگا تو عدالت نے کہا کہ وہ یہ موقع بارہا فراہم کر چکی ہے اب وہ وقت گزر چکا ہے، اشتہاری کا کوئی حق نہیں ہوتا جب تک وہ خود کو عدالت کے سامنے سرنڈر نہ کرے، عدالت نے اس روز سماعت مکمل کرنے کے بعد وقفہ کیا جس کے بعد سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا تھا۔