سٹی42: عوامی جمہوریہ چین کے متعلق قیاس آڑائیاں سچ نکلیں، چین نے ایک ہی جست میں امریکہ اور یورپ کی سیٹلائٹ سے زمین پر لیزر کمیونی کیشن کے میدان میں امریکہ اور یورپ کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ چین عملاً 6 جی ( چھٹی جنریشن) کمیونیکیشنز ٹیکنالوجیز کی ایجاد اور استعمال میں باقی دنیا پر نمایاں برتری حاصل کر رہا ہے۔
چین نے سیٹلائٹ ٹو گراؤنڈ لیزر کمیونیکیشنز میں ایک اہم سنگِ میل عبور کیا ہے جو 6G اور دیگر فیوچرِسٹِک ایپلی کیشنز ک کے عملی استعمال مین چین کی باقی دنیا پر برتری کی راہ ہموار کر سکتی ہے جس میں انتہائی ہائی ریزولوشن کے ساتھ ریموٹ سینسنگ اور نیکسٹ جنریشن سیٹلائٹ پوزیشننگ ٹیکنالوجی شامل ہیں۔
چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کمپنی، دنیا کے سب سے بڑے سب میٹر کمرشل ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ نکشتر Jilin-1 کی مالک ہے، چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کمپنی،نے اعلان کیا ہے کہ اس نے گزشتہ ہفتے کے آخر میں ٹیسٹنگ میں 100 گیگا بائٹ فی سیکنڈ الٹرا ہائی سپیڈ امیج ڈیٹا ٹرانسمیشن کی سپیڈ سے کام کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کمپنی نے بتایا کہ یہ ٹیسٹنگ - اس کے پچھلے ریکارڈ کی رفتار سے 10 گنا زیادہ رفتار کی حامل تھی - بہت غیر معمولی رفتار کی یہ ڈیٹا ٹرانسمشن زمین پر موجود ایک ٹرک پر نصب اسٹیشن اور کمپنی کے 117 جلن-1 سیٹلائٹس میں سے ایک سیٹلائٹ کے درمیان ہوئی۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں چین سے تعلق رکھنے والی ٹیکنالوجی کمپنی کی اس بہت غیر معمولی کامیابی کو گول مول انداز سے ایسے بیان کیا جا رہا ہے کہ "چین نے ایلون مسک کے سٹار لنک کو شکست دے کر سیٹلائٹ سے زمین تک لیزر مواصلات میں کامیابی حاصل کر لی"۔ حالانکہ یہ محص مسک کی ایک کمپنی کا معاملہ نہیں چین نے اس فیوچرِسٹِک ٹیکنالوجی مین ساری ہی دنیا کو پیچھے چھوڑا ہے۔ اس معمولی تفصیل کے ساتھ سامنے لائی گئی خبر سے دراصل مستقبل کا پورا منظر واضح ہو رہا ہے جو سِکس جی/ چھٹی جنریشن کی کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز کے تجربات، مختلف ایجادات کی بربوطیت اور ڈیٹا کمیونیکیشن کی سپیڈ بڑھانے میں غیر معمولی ٹیکنالوجیز کی ایجادات کو عملی اسمتعمال مین لانے سے ایک نئے بہت زیادہ جدید کمیونیکیشن سسٹم کے رو بہ عمل آنے کی نشان دہی کر رہی ہے۔ اسے سمجھنے میں آسانی کے لئے چھ جی سسٹم ہی کہا جائے تو یوں کہا جائے گا کہ چین چھ جی ٹیکنالوجی کے عملی اطلاق میں دنیا پر برتری حاصل کر رہا ہے۔
امغربی میڈیا آؤٹ لیٹ "سَن" نےچانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کمپنی کی اس عظیم چھلانگ کے متعلق خبر کو ایلون مسک کی کمپنی کے ساتھ تقابل کے سرسری انداز کے ساتھ پیش کرتے ہوئے لکھا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ 6G ایک حقیقت ہونے کے ساتھ ساتھ سیٹلائٹ اور لیزر مواصلات کا استعمال کرتے ہوئے دیگر ٹیکنالوجیز کے استعمال کے قریب بھی ہے۔
چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹکنالوجی جو جلن 1 نکشتر کی مالک ہے، اس نے اپنی عظیم کامیابی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ کمپنی نے نئے سال کے دوسرے دن یہ رسمی تصدیق کی کہ وہ 100 گیگا بٹ فی سیکنڈ الٹرا ہائی سپیڈ امیج ڈیٹا ٹرانسمیشن کی شرح تک پہنچنے میں کامیاب ہو چکی ہے۔ چینی کمپنی کو یہ کامیابی دراصل سال 2024 کے آخری ہفتہ کے اواخر میں حاصل ہوئی۔
چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹکنالوجی کمپنی کے ٹیسٹ کے دوران سیٹلائٹ سے ٹرک پر موجود آپٹیکل ٹیلی سکوپ پر ریموٹ سینسنگ تصاویر بھیجی گئیں۔کمپنی کے لیزر کمیونیکیشن کے ٹیکنیکل ڈائریکٹر وانگ زنگ شنگ نے کہا: "اس ٹیسٹ میں ڈیٹا کی شرح 100 گیگا بائٹس فی سیکنڈ تک پہنچ گئی، جو کہ روایتی طور پر سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے لیے استعمال کیے جانے والے ریڈیو فریکوئنسی لنکس سے 10 گنا زیادہ ہے۔"
جلن برج 117 سیٹلائٹس پر مشتمل ہے اور تازہ ترین اپ ڈیٹ کا مطلب ہے کہ یہ سب سے آگے ہے جبکہ مسک کا اسٹار لنک ببہت پیچھے ہے۔
سی جی ایس ٹی کے لیزر کمیونیکیشن گراؤنڈ سٹیشن ٹیکنالوجی کے سربراہ وانگ ہانگ کے حوالے سے ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ نے لکھا ہے کہ "مسک کے سٹار لنک نے اپنے لیزر انٹر سیٹلائٹ کمیونیکیشن سسٹم کا انکشاف کیا ہے لیکن اس نے ابھی تک لیزر سیٹلائٹ سے زمینی مواصلات کو تعینات نہیں کیا ہے۔وانگ ہانگ نے کہا، "ہمارا خیال ہے کہ ان کے پاس ٹیکنالوجی ہو سکتی ہے، لیکن ہم نے پہلے ہی بڑے پیمانے پر زمین پر تعیناتی شروع کر دی ہے۔
"ہم ان لیزر کمیونیکیشن یونٹس کو Jilin-1 نکشتر کے تمام سیٹلائٹس پر ان کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تعینات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جس کا ہدف 2027 تک 300 سیٹلائٹس کو نیٹ ورک کرنا ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ یہ پیش رفت "چین کے سیٹلائٹ انفراسٹرکچر کی تعیناتی اور موثر آپریشن کی بنیاد رکھے گی۔" نیویگیشن، 6G انٹرنیٹ، اور ریموٹ سینسنگ ایپلی کیشنز سب کچھ اس میں شامل ہو رہا ہے۔
دی سن نے دعویٰ کیا ہے کہ لیکن، یہ پہلی بار نہیں ہے کہ اس طرح کی چھلانگ ریکارڈ کی گئی ہو۔ 2022 میں، میساچوسٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (MIT) نے 100Gbps لیزر ٹرانسمیشن کی تھی۔
اگلے سال، NASA کا TeraByte InfraRed Delivery (TBIRD) سسٹم جو MIT نے بنایا تھا، 200Gbps کے ریکارڈ تک پہنچ گیا تھا۔
لیکن، چانگ گوانگ سیٹلائٹ ٹیکنالوجی کے نظام کا کافی فائدہ ہے۔
کمپنی نے انکشاف کیا کہ اس کے گراؤنڈ اسٹیشن نقل و حمل کے قابل ہیں لہذا بادلوں، شدید موسم، یا ماحول کی خرابی جیسے مسائل سے بچنے کے لیے ان گراؤنڈ سٹیشنز کو کہیں بھی رکھا جا سکتا ہے۔
جبکہ TBIRD سیٹلائٹ کا بنیادی حصہ تین 10cm کیوبز پر مشتمل ہے، گراؤنڈ سٹیشن کیلیفورنیا میں ناسا کی جیٹ پروپلشن لیبارٹری کے اندر ہے۔
چین کا بنایا ہوا سسٹم تقریباً 20 کلو گرام وزنی ہے لیکن گراؤنڈ یونٹ کو ٹرک پر نصب کیا جا سکتا ہے اور یہ موبائل ہے یعنی یہ زیادہ تیز رفتار ایپلی کیشنز کا باعث بن سکتا ہے۔
اگرچہ ان گراؤنڈ سٹیشنوں کو اپ گریڈ کرنا مہنگا ہے، وانگ کا خیال ہے کہ مثبت پوائنٹس مکمل طور پر منفی باتوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ کہ اس طرح کے سسٹمز کا استعمال کمپنی کے لیے ایک "اہم سمت" ہے کیونکہ وہ 6G تیار کرنے پر غور کر رہی ہے۔
جب ایسا ہوتا ہے تو، کمپنی کو امید ہے کہ وہ ایک بار پھر آگے بڑھے گی کیونکہ "لیزر کمیونیکیشن بھی اس وقت تک ایک ضروری ٹیکنالوجی ہو گی،" وانگ نے مزید کہا۔
ویسے تو 5 جی ٹیکنالوجی ہی ابھی دنیا کے مختلف ممالک میں دستیاب نہیں مگر مترقی یافتہ ترین ملکوں کی لیبارٹریز مین کئی سال سے چھٹی جنریشن موبائل انٹرنیٹ ٹیکنالوجی پر تیزی سے کام کیا جا رہا ہے۔
چین نے نومبر 2020 میں دنیا کا پہلا 6 جی سیٹلائیٹ زمین کے مدار میں بھیجا تھا۔
اب 5 سال بعد چین نے سیٹلائیٹ سے زمین پر 6 جی سیٹلائیٹ ٹرانسمیشن بھیج کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔
چین کی ایرو سپیس کمپنی چینگ گوانگ سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کمپنی کا دعویٰ دراصل دنیا کے کم از کم چین کی حد تک چھٹی جنریشن کی ٹیکنالوجی کے ایرا مین قدم ڈال دینے کا اعلان ہے۔
6 جی ٹیکنالوجی 5 جی کے مقابلے میں کتنی زیادہ تیز ہوگی
یہ ٹیکنالوجی گزشتہ ریکارڈ سے 10 گنا زیادہ اسپیڈ ہے۔ چین کی کمپنی کے جیلین 1 نامی سیٹلائیٹس کا نیٹ ورک زمین کے زیریں مدار میں موجود ہے جس میں سے ایک سیٹلائیٹ کے ذریعے کمپنی نے موجودہ فائیو جی ٹرانسمشن سپیڈ سے دس گنا زیادہ سپیڈ کے ساتھ حساس بصری ڈیٹا کی کموینی کیشن کو ممکن بنایا۔
کمپنی کے لیزر کمیونیکیشن شعبے کے سربراہ وانگ ہینگ ہانگ نے بتایا کہ 100 جی پی ایس ٹرانسمیشن اسپیڈ کے ذریعے آپ 10 مکمل فلمیں محض ایک سیکنڈ میں ڈاؤن لوڈ کرسکتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کمپنی کی جانب سے 2025 میں لیزر کمیونیکیشن کو جیلین 1 کے تمام 117 سیٹلائیٹس کا حصہ بنایا جائے گا۔
پہلے مغربی ناقد طنزاً کہتے تھے کہ چین چھٹی جنریشن کی ٹیکنالوجیز پر انویسٹمنٹ کر رہا ہے اب وہ کہنے پر مجبور ہیں کہ چین دنیا میں 6 جی ٹیکنالوجی متعارف کرانے والا پہلا ملک بننا چاہتا ہے۔ حقیقت جو از حد سادہ ہے یہ ہے کہ چین چاہتا واہتا نہین بلکہ چہن کمیونیکیشن ٹیکنالوجیز میں گلوبل لیڈر بن چکا ہے۔
5 جی اور 6 جی میں بنیادی فرق الیکٹرو میگنیٹک سپیکٹرم کے فریکوئنسی بینڈز میں ہوگا
5 جی سگنلز عموماً 6 گیگا ہرٹز سے 40 گیگا ہرٹز کے بینڈز کے درمیان ٹرانسمیٹ ہوتے ہیں جبکہ 6 جی کے لیے 100 سے 300 گیگا ہرٹز بینڈز سگنلز استعمال کیے جائیں گے۔
چین کی پیشرفت
چونکہ 6 جی بی ٹیکنالوجی کے لیے زیادہ طاقتور فریکوئنسی بینڈز پر انحصار کیا جائے گا تو اس کے لیے نئے انفرا اسٹرکچر کی بھی ضرورت ہوگی۔
اس سے قبل ستمبر 2024 میں چین نے 3 اہم 6 جی ٹیکنالوجی اسٹینڈرڈز کو انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین (آئی ٹی یو) کے ذریعے متعارف کرایا تھا۔ متعارف کرائے گئے اسٹینڈرڈز کا مقصد آئی ٹی یو کے 2030 فریم ورک کے منظرنامے کو بہتر بنانا تھا۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق 6 جی ٹیکنالوجی کے تینوں اسٹینڈرڈز کی منظوری 26 جولائی کو آئی ٹی یو کے ٹیلی کمیونیکیشن اسٹینڈرڈائزیشن سیکٹر اسٹڈی گروپ 13 کے اجلاس کے دوران دی گئی تھی۔
ہر ٹیکنالوجی کے اسٹینڈرڈز کو تشکیل دینا بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ ماہرین اور کمپنیاں ان کے ذریعے ابتدائی مسابقتی سبقت حاصل کرتے ہیں۔
ان نئے سٹینڈرڈز میں 6 جی کے متعدد پہلوؤں جیسے کانٹینٹ ٹرانسمیشن، ڈیٹا اپ ڈیٹس اور سسٹم پرفارمنس ایسسمنٹس وغیرہ پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔
اسی طرح جولائی 2024 میں چین کے ٹیلی کام انجینئرز نے 6 جی ٹیکنالوجی میں بڑی پیشرفت کرتے ہوئے دنیا کا پہلا فیلڈ ٹیسٹ نیٹ ورک نصب کیا تھا۔
آئندہ نسل کی وائرلیس کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کے اس تجرباتی نیٹ ورک نے 4 جی انفرا اسٹرکچر پر 6 جی ٹرانسمیشن کو یقینی بنایا۔
اس کے ساتھ ساتھ فیلڈ نیٹ ورک کوریج، افادیت اور دیگر شعبوں میں 10 گنا بہتری کا مظاہرہ بھی کیا۔
اسے بیجنگ یونیورسٹی آف پوسٹس اینڈ ٹیلی کمیونیکیشنز نے تیار کیا۔
اس فیلڈ نیٹ ورک سے سائنسدانوں کو 6 جی ٹیکنالوجی پر تحقیق اور مختلف پہلوؤں کو جانچنے کا موقع ملے گا۔