ویب ڈیسک : امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسے منصوبوں پر ضائع کیا گیا جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔11 ستمبر 2001 سے امریکی فوج کو دستیاب وسائل کی آؤٹ سورسنگ سے پینٹاگون کے اخراجات 14 کھرب ڈالر تک بڑھ گئے
اکتوبر 2001 میں امریکہ نے طالبان کو بے دخل کرنے کے لیے افغانستان پر حملہ کیا، جو امریکہ کے بقول اسامہ بن لادن اور القاعدہ کے دیگر افراد جو نائن الیون حملوں سے وابستہ ہیں، انھیں پناہ دے رہے تھے۔
افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ اس وقت ہوا جب واشنگٹن نے طالبان کی شورش کا مقابلہ کرنے اور تعمیر نو کے لیے فنڈ کی خاطر اربوں ڈالر خرچ کیے۔
امریکی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، 2010 سے لے کر 2012 کے درمیان، جب امریکہ کے ایک لاکھ سے زیادہ فوجی افغانستان میں موجود تھے، تو اس جنگ پر آنے والی لاگت ایک کھرب ڈالر سالانہ تک بڑھ گئی تھی۔ جب امریکی فوج نے اپنی توجہ جارحانہ کارروائیوں سے ہٹا کر افغان افواج کی تربیت پر مرکوز کی تو ان اخراجات میں تیزی سے کمی واقع ہوئی۔ 2016 سے 2018 کے درمیان سالانہ اخراجات 40 ارب ڈالر کے لگ بھگ تھے، اور 2019 (ستمبر تک) کے لیے خرچ کا تخمینہ 38 ارب ڈالر ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق افغانستان میں (اکتوبر 2001 سے ستمبر 2019 تک) مجموعی فوجی اخراجات 778 بلین ڈالر تھے۔ اس کے علاوہ امریکی محکمہ خارجہ، امریکی ایجنسی برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور دیگر سرکاری ایجنسیوں نے تعمیر نو کے منصوبوں پر 44 ارب ڈالر خرچ کیے۔
وال اسٹریٹ جرنل میں شائع رپورٹ کے مطابق 11 ستمبر 2001 سے امریکی فوج کو دستیاب وسائل کی آؤٹ سورسنگ سے پینٹاگون کے اخراجات 14 کھرب ڈالر تک بڑھ گئے اوراس رقم کا ایک تہائی حصہ ٹھیکیداروں کو تفویض کیا گیا۔امریکی ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسے منصوبوں پر ضائع کیا گیا جو کبھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔
ایسے ہی ایک منصوبے پرپینٹاگون نے 60 لاکھ ڈالر خرچ کیے جس نے افغانستان کی مارکیٹ کو فروغ دینے کے لیے نو اطالوی بکرے درآمد کیے تھے۔ یہ منصوبہ اپنے اہداف حاصل نہیں کرسکا۔
پانچ دفاعی کمپنیوں لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن، بوئنگ کمپنی، جنرل ڈائنامکس کارپوریشن، ریتھیون ٹیکنالوجیز کارپوریشن اور نارتھروپ گرومن کارپوریشن نے ہتھیاروں، سپلائیز اور دیگر سروس کے لیے 2.1 ٹریلین ڈالر کا بڑا حصہ لیا۔ براؤن یونیورسٹی کے جنگی منصوبے کے اخراجات، علاقے کے ماہرین، قانونی ماہرین اور دیگر افراد سے ڈیٹا اکٹھا کیا جو امریکا کی جنگوں کے پوشیدہ اثرات پر کام کر رہے ہیں۔
ڈبلیو ایس جے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک نوجوان افغان مترجم نے امریکی افواج کو بستر کی چادریں فراہم کرنے کے معاہدے کیا اور اس سے حاصل ہونے والی کمائی سے ٹی وی اسٹیشن سمیت ایک گھریلو ایئر لائن بھی بنا لی۔
کیلیفورنیا کے تاجر نے کرغزستان میں ایک بار چلاتے ہوئے ایندھن کا کاروبار شروع کیا جس سے اربوں کی آمدنی ہوئی۔ اوہائیو کے دو آرمی نیشنل گارڈز نے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کیا جو فوج کو افغان ترجمان فراہم کرتا ہے، یہ امریکی فوج کے اعلیٰ ٹھیکیداروں میں سے ایک بن گیا، جس نے وفاقی معاہدوں میں تقریباً $4 بلین جمع کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ 2008 میں امریکا کے افغانستان اور عراق میں ایک لاکھ 87 ہزار 900 فوجی جبکہ 2 لاکھ 3 ہزار 660 کنٹریکٹر تھے۔ جب سابق امریکی صدر براک اوباما نے اپنی دوسری مدت کے اختتام پر زیادہ تر امریکی فوجیوں کو افغانستان سے نکل جانے کا حکم دیا تھا، اس وقت 26 ہزارسے زیادہ ٹھیکیدار افغانستان میں تھے اور فوجیوں کی تعداد 9 ہزار 800 تھی۔
4 برس بعد جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ چھوڑا تب تک 2500 فوجیوں کے ساتھ 18 ہزارٹھیکیدار افغانستان میں موجود تھے۔
افغانستان اور عراق میں 3 ہزار 500سے زیادہ امریکی کنٹریکٹرز اور 7 ہزارسے زیادہ امریکی فوجی دو دہائیوں کی جنگ کے دوران مارے گئے۔ ٹھیکیدار اکثر افغانوں کو اپنا کام کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے لیکن انہیں انتہائی کم ادائیگی کرتے تھے۔ افغان مترجم کی اوسط ماہانہ آمدنی 2012 میں تقریباً 750 ڈالر سے کم ہو کر 2021 میں 500 ڈالر رہ گئی تھی۔
ملک کے مشکل ترین حصوں میں امریکی فوجیوں کے شانہ بشانہ کام کرنے والے افغان مترجم کو ماہانہ 300 ڈالر تک کم تنخواہ دی جاتی تھی۔