سٹی42: "کرو یا مرو احتجاج" کی "فائنل کال" کے بری طرح پِٹ جانے کے بعد بانی کی بہن نے دعویٰ کیا ہے کہ بانی کے پاس ایک "ٹرمپ کارڈ" بھی ہے جو وہ کسی کو نہیں دکھا رہے۔ ایک معاصر انگریزی اخبار کے رپورٹ نے پی ٹی آئی کے بانی کی بہن علیمہ خان کو یہ کہتے بتایا ہے کہ ان کا بھائی "ٹرمپ کارڈ " کو مناسب وقت پر استعمال کرے گا۔
علیمہ خان نے منگل کے روز راولپنڈی کی اڈیالہ جیل مجا کر پی ٹی اائی کے بانی سے ملاقات ک کی۔ اس ملاقات کے بعد علیمہ نے صحافیوں کو بتایا، ’بانی نے مجھے بتایا ہے کہ ان کے پاس ایک ٹرمپ کارڈ باقی ہے اور یہ کہ وہ ابھی اپنا ٹرمپ کارڈ ظاہر نہیں کریں گے۔"
علیمہ نے صحافیوں سے شکایت کی کہ انہوں نے کل چھ گھنٹے انتظار کیا لیکن انہیں بانی سے ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
علیمہ نے پی ٹی آئی کے بانی کی بگڑتی ہوئی صحت کے بارے میں پی ٹی آئی کے ہی بعض لیڈروں کی پھیلائی ہوئی افواہوں کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ "بالکل ٹھیک" ہیں۔
"کرو یا مرو احتجاج"کے "نتائج " پر اپنے بھائی کے موقف کی تفصیل دیتے ہوئے، علیمہ نے دعویٰ کیا کہ بانی کو جیل میں اخبارات اور ٹیلی ویژن تک رسائی نہیں ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے بانی کو اسلام آباد مظاہرے کے بارے میں ان کے وکلاء سے معلومات ملیں جنہوں نے آج اور کل ان سے ملاقات کی۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پی ٹی آئی کے بالی کی "کرو یا مرو احتجاج" کی "فائنل کال" اور پارٹی کو سخت نوعیت کی ہدایات سامنے آنے کے بعد وفاقی حکومت نے دارالحکومت کو بیلاروس کے صدر کی آمد کے موقع پر تشدد سے بچائے رکھنے کے لئے ہر طرح کے اجتماع پر پابندی لگا دی تھی، اس پابندی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی جائز قرار دیتے ہوئے شہر کی انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ کسی بھی طرح کے احتجاج اور ممکنہ تشدد کو روکنے کے لئے وہ ضروری اقدامات کرے۔ بانی کی احتجاج کی کال پر صرف خیبر پختونخوا سے چند ہزار افراد کے جتھے بانی کی بیوی بشریٰ بی بی اور وزیر اعلیٰ علی امیند گنداپور کے ساتھ اسلام آباد تک آئے تھے اور 27 نومبر کی شب وفاقی پولیس اور رینجرز نے شہر کو باہر سے آئے ہوئے تمام شر پسندوں سے پاک کر دیا تھا۔ اس سرگرمی کے دوران ایک ہزار کے لگ بھگ افراد گرفتار ہوئے تھے۔ 27 نموبر کی شب گرفتاریوں سے پہلے پشاور سے چلنے والے قافلوں کے ساتھ تصٓدم کے دوران تین رینجرز اور ایک پولیس اہلکار سمیت کم از کم چار قانون نافذ کرنے والے اہلکار شہید ہوئے تھے۔
27 نومبر کی شب اندھیرا پھیلنے کے بعد جب قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ممنوعہ قرار دیئے گئے علاقوں کو خٓلی کرنے کے لئے وارننگ دی تو بشریٰ بی بی اور علی امین گنڈاپور اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر فرار ہو گئے تھے جبکہ بہت سے لوگوں کو سڑکوں پر گرفتار کر لیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی نے پہلے تو دو دن تک اپنے پشاور اور ہزارہ سے آنے والے جتھوں کے شرکا کی تعداد کو بہت زیادہ بڑھا چڑھا کر آٹھ لاکھ تک ظاہر کیا، جب 27 نومبر کی رات کچھ ہزار قانون نافذ کرنے والوں نے ڈی چوک ، شاہراہ دستور اور ملحقہ علاقوں مین موجود چند سو افراد کو گرفتار کر لیا اور باقی کچھ سو اپنی گاڑیوں کو بھگا کر لے جانے مین کامیاب ہو گئے تو پی تی آئی کی طرف سے سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر یہ کہا گیا کہ ڈی چوک پر ان کے سینکڑوں کارکن گولیاں لگنے سے ہلاک ہوئے ہیں۔
ایک روز بعد پاکستان کی فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی کے سائبرکرائم ونگ نے سوشل پلیٹ فارمز پر لاشوں کا پروپیگنڈٓ کرنے والے دس سے زائد افراد کے خلاف ریاست مخالف سرگرمیوں اور دہشتگردی جیسے سنگین الزامات کے تحت مقدمات درج کر لئے تو اس کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت نے سینکڑوں ہزاروں اموات کے دعوے کرنے والے اپنے کارکنوں سے لاتعلقی اختیار کرنے کا بیان دے دیا۔ تب سے پی ٹی آئی کے بعض لیدر یہ کہہ رہے ہیں کہ 27 نومبر کو ڈی چوک "احتجاج" میں 12 افراد مرے لیکن اب تک پی تی آئی کی جانب سے کسی کارکن یا حامی کے جنازے کے متعلق کوئی ثبوت میڈیا کے ساتھ شئیر نہیں کئے گئے۔
اسلام آباد پولیس کے کریک ڈاؤن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے سینکڑوں حامیوں کی گرفتاری ہوئی، علیمہ نے کہا: "ہم سے "سانحہ کے بارے میں اپ ڈیٹس "ملنے کے بعد عمران حیران رہ گئے اور انہوں نے [وزیراعظم] شہباز شریف اوروزیر [داخلہ] ک محسن نقوی کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرنے کی ہدایت کی۔
علیمی کے بقول ان کے بھائی عمران نے کہا کہ اس واقعے سے عوام میں غم و غصہ بڑھے گا اور بانی نے اس معاملے کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کا حکم دیا۔ علیمہ نے مظاہرین پر گولیاں چلانے پر موجودہ حکومت سے سوال کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔
سابق حکمران جماعت کی اعلیٰ قیادت پر تنقید کرتے ہوئے، علیمہ نے کہا: "انہیں کنٹینر پر [احتجاج کے دوران] اس وقت ہونا چاہیے تھا جب بشریٰ بی بی مظاہرین کی قیادت کر رہی تھیں۔"
ایک روز قبل، جیل میں بند پی ٹی آئی کے بانی کو ان کی جماعت کے حالیہ تشدد کے بعد درج کئے گئے سات نئے مقدمات میں بھی گرفتار کیا گیا جس میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر منظم حملوں میں ہونے والے جانی نقصان کے مقدمے بھی شامل ہیں۔