سٹی42: جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے پارلیمنٹ میں اکثریتی اپوزیشن پارٹی اور سیول کے عوام کی طاقت کو تسلیم کر کے مارشل لا لگانے کا اعلان چند گھنتے بعد واپس لے لیا۔ صدر یون کے حکم پر فوج منگل اور بدھ کی درمیانی رات سیول مین جنوبی کوریا کی پار؛لیمنٹ میں داخل ہو گئی تھی لیکن ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ بہت بڑی تعداد مین پارلیمنٹ میں آئے اور اجلاس کر کے مارشل لا کو ْ غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس دوران پارلیمنٹ کے باہر ہزاروں شہری جمع رہے جو مارشل نا منظور جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
مارشل لا کو عملاً مسترد کر دیئے جانے کے بعد صدر یون نے صبح پانچ بجے (پاکستانی وقت صبح ایک بجے) مارشل لا کا حکم واپس لینے کا وعدہ کر لیا۔ بعد میں یونہاپ نیوز ایجنسی نے بتایا کہ، جنوبی کوریا کی کابینہ نے صدر یون سک یول کے اعلان کردہ مارشل لا کو ختم کر دیا ہے۔
یونہاپ یہ بھی رپورٹ کر رہا ہے کہ جنوبی کوریا کی فوج نے مارشل لاء کمانڈ کو ختم کر دیا ہے۔
صبح تین بجے تک
سیول کے وقت کے مطابق صبح ڈھائی بجے سے تین بجے تک یہ دکھائی دینے لگا تھا کہ جنوبی کوریا سنگین آئینی بحران میں پھنس رہا ہے۔ سامنے آنے والی خبریں بتا رہی تھیں کہ جنوبی کوریا میں سیاسی بحران بڑھ کر سنگین آئینی بحران میں بدل گیا ہے۔ صدر یون سک یول نے عوام کی منتخب پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی جماعت کو "ملک دشمن" اور شمالی کوریا کی طرف جھکاؤ رکھنے والی پارٹی قرار دے کر اس کے احتجاج کو روکنے کے لئے مارشل لا لگایا تو پارلیمنٹ نے ان کے مارشل لا کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس وقت دارالحکومت سیول میں کشیدگی روج پر ہے۔ صبح کے ڈھائی بجے سڑکوں پر اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے حامیوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور مارشل لا کے اعلان پر عملی نفاذ دارالحکومت کی حد تک مشکل ہو گیا ہے۔
پہلے فوج پارلیمنٹ میں گھسی، اس کے بعد پارلیمنٹ کے ارکان آئے
جنوبی کوریا میں صدر کی جانب سے مارشل لا کے نفاذکے فوراً بعد دارالحکومت سیول میں فوجی دستے پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل ہوگئے تھے۔پولیس نے جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ کے داخلی راستے بند کردیئے اور ارکان کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روک دیا ، تاہم ڈیومکریٹک پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ پولیس سے دھکم پیل کر کے پولیس حصار کو توڑتے ہوئے پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے۔ بعض ارکان پارلیمنٹ کی بلڈنگ کی بیرونی دیواریں پھلانگ کر پارلیمنٹ میں پہنچے۔
پارلیمنت کے اندر جمع ہو کر ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان نے جنوبی کوریا میں مارشل لا ختم کرنے کی قرار داد منظور کی۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں کُل 300 میں سے 190 اراکین موجود تھے جنہوں نے مارشل لا ختم کرنے کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔
اراکین کے پارلیمنٹ میں داخل ہونے اور پارلیمنٹ کا اجلاس شروع ہونے کے بعد فوج کے خصوصی دستے بھی ایوان خالی کروانے کے لیے پارلیمنٹ میں داخل ہوگئے۔
پارلیمنٹ کے باہر رت جگا
اس وقت، جنوبی کوریا میں مقامی وقت کے مطابق صبح 2:30 بجے ہیں، اور قومی اسمبلی کے چیمبر میں ملک کے تقریباً 190 قانون سازوں نے حال ہی میں صدر کے مارشل لا کے اعلان کو روکنے کے لیے متفقہ طور پر ووٹ دیا ہے۔ پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر ہزاروں افراد کا صدر کے خلاف احتجاج جاری ہے۔
آج منگل کے روز پہلے صدر یون سِک یول نے مارشل لا لگایا، اس کے کچھ ہی گھنٹے بعد جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے مارشل لاء کو روکنے کے حق میں ووٹ دے دیا۔
یونہاپ اور رائٹرز نیوز ایجنسیوں کے مطابق، جنوبی کوریا کی پارلیمنٹ نے مارشل لا کے اعلان کے صدر کے اقدام کو روکنے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔
صدر بائیڈن اب تک خاموش
امریکہ کے صدر جو بائیڈن کو ان کے معاونین نے قریبی اتحادی ملک جنوبی کوریا کے دارالحکومت مین رونما ہونے والے واقعات سے آگاہ کر دیا ہے تاہم صدر بائیڈن اب تک ان واقعات پر خاموش ہیں۔ میڈیا اطلاعات کے مطابق بائیڈن کو جنوبی کوریا کی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کیا جا چکا ہے۔
وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کو انگولا کے بارے میں کچھ ریمارکس دینے کے بعد جنوبی کوریا کی تازہ ترین پیش رفت سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔
بائیڈن اپنے ہم منصب João Lourenço کے ساتھ بات چیت کے ایک حصے کے طور پر وسطی افریقی ملک انگولا کا دورہ کر رہے ہیں۔
فوج صدر کی نہیں ہماری سنے
شاذ و نادر ہی آپ کو صبح 02:00 بجے کسی ملک کی پارلیمنٹ کے ممبر سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے اور اس سے بھی زیادہ شاذ و نادر ہی آپ کو ان سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے جب وہ ابھی - حقیقت میں - پارلیمنٹ کے میدان میں مار کھا چکے ہوں۔
مرکزی اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے قومی اسمبلی کے رکن ہانگ کیون نے بین الاقوامی نشریاتی ادارہ بی بی سی کو بتایا کہ جب صدر نے رات گئے مارشل لاء کا اعلان کیا تو وہ سو رہے تھے۔ ہانگ کی بیوی نے اسے خبر بتانے لیے جگایا۔
ہانگ نے کہا کہ انہیں پہلے اس پر یقین نہیں آیا۔ اس کے بعد وہ پارلیمنٹ کی طرف بھاگے۔
جب وہ وہاں پہنچے تو پولیس نے داخلی راستہ روک رکھا تھا۔ تو انہوں نے مظاہرین کو بتایا کہ وہ کون ہیں اور انہوں نے پارلیمنٹ کے اندر پہنچنے کے لئے دیوار پھلانگی۔
پارلیمنٹ کے چیمبر کے اندر انہوں نے کہا کہ سب متحد ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صدر کی اپنی پارٹی کے ارکان بھی یقین نہیں کر سکتے کہ کیا ہو رہا ہے۔
"یہاں جمہوریت مضبوط ہے،" ہانگ نے اصرار کرتے ہوئے کہا: فوج کو صدر کی بجائے ہماری بات سننا چاہئے۔
صدر یون سک یول کے مخالف مظاہرین پارلیمنٹ کے باہر 'مارشل لا نہیں چاہئے' جیسے نعرے لگا رہے ہیں۔
جنوبی کوریا مین صدر عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب ہوتا ہے جبکہ پارلیمنٹ کے ارکان پاکستان کی قومی اسمبلی کے ارکان کی طرح مخصوص آبادی اور رقبہ پر مشتمل حلقوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں۔
سیول میں اس وقت قومی اسمبلی کے میدان سے باہر ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکن اور حامی بڑی تعداد میں جمع ہیں اور اس وقت ان کو "مارشل لا کو نہیں مانتے"، "آمریت کو ختم کرو" اور "گیٹ کھولو" کے نعرے لگاتے ہوئے سنا جا سکتا ہے۔ اس دوران پس منظر میں کبھی کبھار سائرن کی آوازیں آ رہی ہیں۔
پولیس کی درجنوں گشتی کاریں اور اینٹی رائٹ پولیس کی بسیں پارلیمنٹ کے نزدیک جمع ہیں۔
مظاہرین کا ایک ہجوم پارلیمنٹ کے دروازے کے باہر کھڑا ہے۔
سیول کے غیر سیاسی رہائشیوں کو خوف میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سوشل ویب سائٹس پر سیول کی سورتحال کے متعلق ہر بات وائرل ہو رہی ہے۔ اس وقت سیول کی سڑکوں پر کھڑے ٹینکوں کی تصاویر آن لائن گردش کر رہی ہیں، جو الجھن اور تشویش کو بڑھا رہی ہیں۔
جنوبی کوریا کے صدر نے پارلیمنٹ میں اکثریت رکھنے والی اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی کے حالیہ اقدامات کو اپنے مارشل لا لگانے کے انتہائی نوعیت کے فیصلے کا محرک قرار دیا۔ یہ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب پارلیمنٹ نے صدل یول کی حکموت کا بنایا ہوا بجٹ مسترد کر دیا۔ ڈیموکریٹک پارٹی نے پارلیمنٹ میں صدر یول سے قرابت رکھنے والے ملک کے چند اعلیٰ پراسیکیوٹرز کے مواخذے کی تحریک بھی پیش کی تھی۔
جنوبی کوریا کی خبررساں ایجنسی کے مطابق اپوزیشن جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ نے مارشل لا کے نفاذ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ پارلیمنٹ اس فیصلے کو منسوخ کردے گی۔
ابتدا میں خبریں آئی تھیں کہ پولیس نے سیول میں پارلیمنٹ کے داخلی راستے بند کردیئے ہیں اور ارکان کو پارلیمنٹ میں داخلے سے روک دیا گیا ہے۔ بعد مین پارلیمنٹ کا اجلاس معمول کے مطابق ہوا اور پارلیمنٹ کے باہر ڈیموکریٹک پارٹی کے سینکڑوں حامی بھی اکٹھے ہو گئے جنہوں نے مارشل لا کو مسترد کرنے کے نعرے لگانا شروع کر دیئے۔
سیول کے بعض رہائشیوں نے فضا مین پولیس کے ہیلی کاپٹروں کی موجودگی کی بھی اطلاع سوشل میڈیا پو پوسٹ کی۔
سیول کی ایک اور رہائشی کم می رم نے ایک سوشل پلیٹ فارم پر لکھا کہ انہوں نے اپنی سفر کرنے کی ہنگامی کٹ پیک کر لی ہے،انہین خدشہ ہے کہ صورتحال مزید بڑھ سکتی ہے۔ مارشل لاء کے پچھلے واقعات میں گرفتاریاں اور قید شامل تھیں۔
دریں اثنا، سیئول میں صحافی قریبی تعاون کر رہے ہیں، محتاط رہنے کے بارے میں مشورے بانٹ رہے ہیں۔ مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ، تمام میڈیا اور اشاعتی سرگرمیاں سخت حکومتی کنٹرول میں آ سکتی ہے۔
صدر یون سِک یول نے گھٹنے ٹیک دیئے، مارشل لا کا حکم واپس لینے کا اعلان
سیول میں صبح کے پانچ بجے یہ خبریں آئیں کہ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے مارشل لاء اٹھانے کا عندیہ دیا ہے۔
پاکستانی وقت کے مطابق بدھ کی صبح ایک بجے بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے رپورٹروں نے سیول سے رپورٹس میں بتایا کہ جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے اعلان کیا ہے کہ وہ مارشل لاء کے اس اعلان کو اٹھانے کے لیے آگے بڑھیں گے جو انھوں نے صرف چند گھنٹے قبل نافذ کیا تھا۔
یہ اس وقت سامنے آیا جب قانون سازوں نے صدر کے مارشل لا حکم نامے کو غیر مؤثر کرنے کےلئے فوج کی پارلیمنٹ میں موجودگی کی پرواہ کئے بغیر پارلیمنٹ میں جمع ہو کر متفقہ طور پر ووٹ دیا کہ صدر کا نافذ کیا ہوا مارشل لا غیر قانونی ہے۔ اس وقت آدھی رات بیت چکی تھی اور شہر میں خوف و ہراس تھا لیکن پارلیمنٹ کے 300 میں سے 190 ارکان اس ہنگامی اجلاس میں موجود تھے۔
اس وقت سیول میں پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے جنوبی کوریائی باشندے، مارشل لا ہٹائے جانے کی اطلاعات کو سن کر جشن مناتے ہوئے دیکھے جا رہے ہیں کیونکہ صدر یون نے کہا ہے کہ وہ مارشل لا ہٹا دیں گے۔
اژانس فرانس پریس کے کورین پارلیمنٹ کے باہر موجود نامہ نگاروں کے مطابق، جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول کے اعلان کے چند لمحوں بعد جب وہ مارشل لا اٹھا لیں گے تو قومی اسمبلی کے باہر لوگوں نے جشن منایا۔
جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول نے کہا کہ وہ اپنی کابینہ کی میٹنگ کے بعد مارشل لا ہٹا دیں گے، جو کہ آئندہ چند گھنٹوں میں متوقع ہے۔
یون نے یہ بھی کہا کہ فوجی دستے قومی اسمبلی سے پیچھے ہٹ چکے ہیں۔
پینٹاگون کا بیان
پینٹاگون نے کہا ہے کہ امریکہ اور جنوبی کوریا کی فوجیں "رابطے میں" ہیں لیکن اس نے نوٹ کیا کہ رونما ہونے والے واقعات کے درمیان سیئول سے مدد کی کوئی درخواست نہیں کی گئی ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان میجر جنرل پیٹرک رائیڈر نے ایک نیوز بریفنگ کے دوران بتایا کہ انہیں یہ بھی یقین نہیں ہے کہ مارشل لاء کے اعلان کا اب تک جنوبی کوریا میں تعینات تقریباً 28,500 امریکی فوجیوں پر کوئی خاص اثر پڑا ہے۔