اشرف خان: کے الیکٹرک انتظامی معاملات سنبھالنے کی جنگ طویل ہونے کے امکانات دکھائی دینے لگے ہیں۔ کے الیکٹرک کے اکثریتی حصص کا مالک ہونے کے دعوے دار شہریار چشتی کے سامنے آ جانے سے تاہم یہ راز اب پبلک کی سطح پر کھل جانے کا امکان واضح ہو گیا ہے کہ ابراج گروپ کی انویسٹمنٹ کےاصل مالک کون لوگ تھے۔
کے الیکٹرک نے اکثریتی شئیرز کے مالک اور کمپنی کو اب تک کنٹرول کرنے والے اقلیتی شئیرز کے مالک کے درمیان انتظامی کنٹرول کے لیے اختلاف پرعدالتی جنگ سندھ ہائی کورٹ اورکیمن آ ئی لینڈ سے نکل کر برطانیہ تک پہنچنے کے امکانات ہیں ۔ الجماععہ کمپنی کے انویسمنت آفیسر شان عباس اشعری نے کہا ہے کہ شہریار چشتی کے الیکٹرک کا منجمنٹ کنٹرول نہیں سنبھال سکتے
ایشیا پاک کی جانب سے کے الیکٹرک انتظامی امور سنبھالنے کا اعلان سامنے آنے کے بعد الجما ععہ اور کویتی گروپ نے بھی سخت موقف اختیار کرلیا ۔ شان عباس اشعری چیف انویسٹمنٹ آفسیر الجماععہ کا کہنا ہے کہ ایشیا پاک کی جانب سے ملکیت کے دعوے کا معاملہ زیر سماعت ہے اور قانونی چارہ جوئی کا حق رکھتے ہیں ۔ چیف انویسٹمنٹ آفسیر الجماععہ نے کہا ہےکہ ہر طرح کی قانونی جنگ لڑنے کے لیے تیار ہیں ، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابراج کے ساتھ ہوا معاہدہ نئے فریق کو ہماری اجازت کے بغیر منتقل کرنا ہماری دانست میں غلط ہے۔چیف انویسٹمنٹ آفسیر الجماععہ نے کہا ہے کہ نئے سرمایہ کار کا بڑے شیئر ہولڈر کا دعویٰ ہے تو وہ اپنے دعوے کو ثابت کرے۔ اشعری نےیہ بھی بتایا کہ کے ای میں سعودی اور کویتی سرمایہ کاری 2005 سے ہے۔ یہ بھی کہا کہ آئندہ سات سال میں کراچی کی بجلی سستی کرنے کا منصوبہ نیپرا میں جمع کرا چکے ہیں۔ بجلی سستی کرنے کے پلان میں 500 ارب روپے کی سرمایہ کاری شامل ہے جس میں کوئلہ ،شمسی اور ہوا سے سستی بجلی بنانے سے کراچی کے شہریوں کو ٹیرف میں ریلیف ملے گا ۔اشعری نے یہ بھی کہا ہے کہ سات سالہ سستی بجلی کا ویژن پبلک دستاویز ہے جو کے الیکٹرک اور نیپرا کی ویب سائیٹ پر موجود ہے
چیف انویسٹمنٹ آفسیر الجماععہ نے بتایا کہ کے الیکٹرک کے بورڈ میں پچھلے دس ماہ میں کوئی نیا ڈائریکٹر تعینات نہیں ہواہے ۔ انہوں نے صاف کہا کہ شہریار چشتی نے اگر اکثریتی شیئرز خریدے ہیں تو وہ ثابت کریں.
دوسری جانب ایشیا پاک کمپنی کےمالک چشتی کی جانب سے ان کے کمپنی آئی جی ایف سی ایس پی وی21 لمیٹڈ نے کیمن آئی لینڈ میں ایک دعویٰ دائر کیا ہے جس میں کے الیکٹرک کو کنٹرول کرنے والی کمپنی کے ای ایس پاور لمیٹڈ (کے ای ایس پی) کو وائنڈ اپ کرنے کی درخواست کی گئی ہے اورر یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ آئی جی ایف سی کی ذیلی کمپنی ایس پی وی21کے پاس کے ای ایس پی کے 53 اعشاریہ 8 فیصد فنڈز ہیں اور یہ پہلے ابراج گروپ کے تحت چلائی جا رہی تھی جو اب کالعدم ہو چکا ہے۔ اب آئی جی ایف سی کو اس کا جنرل پارٹنر دوسرے لمیٹڈ پارٹنرز کی طرف سے چلا رہا ہے۔ 2022 سے آئی جی ایف سی کا جنرل پارٹنر سیگ وینچر گروپ لمیٹڈ (ایس وی جی ایل)کی ملکیت ہے، ایس وی جی ایل ایشیا انویسٹمنٹ لمیٹڈ کی ایک اسپیشل پرپز کمپنی ہے۔ ایس وی جی ایل اور ایشیا پاک کے الٹی میٹ بینیفشری مالک شہریار چشتی ہیں۔
دعوے میں کہا گیا ہے کہ ایس وی جی ایل نے 2009 میں جب کےالیکٹرک چلنے کے قابل نہیں رہی تھی اور 2005 کی پرائیویٹائزیشن ناکام ہو رہی تھی تو کے ای ایس پی میں فارن ڈائریکٹ فنڈنگ کی تھی۔ اور کے ای ایس پی کی سب سے بڑی شئیر ہولڈر بن گئی تھی۔ درحقیقت کے ای ایس پی میں صرف ایک ہی فارن ڈائریکٹ فنڈنگ آئی جو ایس وی جی ایل کے انویسٹروں کی جانب سے فراہم کی گئی تھی۔
دعوے میں کہا گیا ہے کہ 2019 تک کے الیکٹرک کی حالت بہت بہتر ہو گئی تھی تاہم ابراج گروپ کے دیوالیہ ہونے کے بعد ہم افسوس کے ساتھ دیکھ رہے ہیں کہ کے الیکٹرک کی حالت خراب ہوتی جا رہی ہے اور یہ اپنے کنزیومرز اور انویسٹرز کے لئے مثبت نتائج پیدا نہیں کر پا رہی۔ کے ای ایس پی کے اقلیتی شئیر ہولڈرز نے(جو تمام مل کر 46 اعشاریہ 2 فیصد شئیرز کے مالک ہیں جبکہ ایس وی جی ایک 53 اعشاریہ 8 فیصد شئیرز کی مالک ہے) اکثریتی شئیرہولڈرز کو بورڈ آف ڈٓئریکٹرز میں اپنے نمائندے نامزد کرنے سے روک دیا ہے۔
دعوے میں کہا گیا ہے کہ کیونکہ کے ای ایس پی بار بار کوششوں کے باوجود اکثریتی شئیرہولڈرز کی شکایات دور نہیں کر سکی بلکہ نقصان پہنچانے کا باعث بنی اور کے ای ایس پی شئیر ہولڈرز ایگریمنٹ کی بھی سنگین خلاف ورزوں کی مرتکب ہوئی اس لئے اب کے ای ایس پی کو منصفانہ انداز سے ختم کر دیا جائے۔
دعویٰ میں کہا گیا ہے کہ کے ای ایس پی کو ختم کرنے سے کے الیکٹرک کی فنکشننگ پر کوئی اثر نہیں پڑے گا اور کمپنی کی انتظامیہ اور بورڈ آف ڈائریکٹرز بدستور کام کرتے رہیں گے۔ اس اقدام کا مقصد یہ ہے کہ ایس وی جی ایل کے ای کے اکثریتی شئیر ہولڈر کی حیثیت سے کے ای ایس پی ہولڈنگ کمپنی کے زریعہ کام کرنے کی بجائے براہ راست کمپنی کا کنٹرول سنبھالے۔ اس موقع پر شہریار چشتی کی طرف سے کہا گیا کہ ہمارا واحد مقصد کراچی کے صارفین کو افورڈیبل اور بہتر بجلی کی سروس فراہم کرنا ہے۔
واضح رہے کہ کراچی الیکٹرک میں سرمایہ کاری کر کےاس کا کنٹرول حاصل کرنے والی کمپنی ابراج کے متعلق اب تک کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اس میں سرمایہ ڈالنے والے کون لوگ ہین اور کون لوگ کراچی الیکٹرک کے حقیقی خریدار ہیں۔
16 جولائی 2021 کو ایک معاصر اخبار میں منصور حسن خان ایڈووکیٹ نے لکھا تھا کہ ابراج گروپ کے پیچھے کون سرمایہ کار ہیں اس کا کسی کو کچھ علم نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ شہریار چشتی کے دعوے سے پہلے اب تک کوئی نہیں جانتا کہ ابراج گروپ کن لوگوں کے سرمایہ سے کے الیکٹرک کو چلا رہا تھا اور کے الیکٹرک کے بظاہر نقصان میں جانے کے باوجود عارف نقوی کو بھاری تنخواہیں دینےوالے اصل انویسٹر کون لوگ تھے۔
کے الیکٹرک کی 2005 میں نجکاری کی گئی، جب کیمن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ کمپنی کے ایس ای پاور KSE-Power نے کمپنی میں 66.4 فیصد حصص حاصل کئے تھے۔ KES پاور میں ابتدائی سرمایہ کار سعودی عرب کا الجامعہ گروپ اور پاکستان سے حسن ایسوسی ایٹس تھے۔ ان انویسٹرز کا الیکٹرک یوٹیلیٹیز کو چلانے کا قابل ذکر تجربہ نہیں تھا، KE کے سائز اور پیچیدگی کو سمجھنا ان انویسٹرز کے لئے ناممکن کام ثابت ہوا اور اس نجکاری کو شروع سے ہی برباد تصور کیا جانے لگا تھا۔
2009 میں جب کے الیکٹرک کو حکومت پپاکستان سے خریدنے والی کےایس ای پاور کی مالی حالت بہت پتلی ہو گئی تو ابراج گروپ سے تعلق رکھنے والے کچھ نجی ایکویٹی فنڈز نے KES پاور کا کنٹرول حاصل کر لیا۔ اگرچہ، کے ای ایک لسٹڈ پاکستانی کمپنی ہے، اور لسٹنگ مکمل انکشافکا تقاضا کرتی ہے، لیکن آج تک کے ای ایس پاور کی اصل ملکیت کے ڈھانچے کے بارے میں کوئی معلومات پبلک ڈومین میں دستیاب نہیں تھیں۔
ہم صرف اتنا جانتے تھے کہ ابراج گروپ کے مختلف فنڈز کے ای ایس پاور میں اکثریتی حصص ہیں — ہم ان فنڈز کے نام نہیں جانتے تھے اور نہ یہ جانتے تھے کہ KES پاور میں کوئی اور سرمایہ کار موجود ہیں یا نہیں۔
ابراج گروپ کا نام غیر رسمی طور پر کچھ پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز اور دیگر کمپنیوں کے لیے استعمال کیا جاتا تھا جو پاکستانی نژاد انویسٹمنٹ مینیجرعارف نقوی نے قائم کیے تھے۔ ابراج ہولڈنگز، 2002 میں کیمن آئی لینڈ میں رجسٹرڈ، ابراج گروپ کی اعلیٰ سطح کی ہولڈنگ کمپنی تھی، اور مسٹر نقوی اس کے سب سے بڑے شیئر ہولڈر اور سی ای او تھے۔ ابراج ہولڈنگز کی مکمل ملکیت ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ تھی، جو کیمن آئی لینڈ میں بھی رجسٹرڈ تھی۔ ابراج گروپ نے مختلف پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز کا اہتمام کیا جن کو ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ اور مسٹر نقوی نے سرمایہ کاری کے مشورے فراہم کیے۔
ابراج گروپ نے اپنے پرائیویٹ ایکویٹی فنڈز کے لیے کئی ہائی پروفائل اداروں بشمول بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن، امریکی حکومت کی اوورسیز پرائیویٹ انویسٹمنٹ کارپوریشن اور ورلڈ بینک گروپ سے بڑی سرمایہ کاری کو راغب کیا۔ باہر والوں کے لیے ابراج گروپ ایک شاندار کامیابی تھی - 2018 میں، یہ 13 بلین ڈالر سے زیادہ کے فنڈز کا انتظام کر رہا تھا۔
تاہم حقیقت بالکل مختلف تھی۔ یو ایس سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن (SEC) کے مطابق، 2015 تک، اور اس کے بعد جاری، ابراج ہولڈنگز اور ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ، "دیوالیہ تھے، جن کے پاس ملازمین کی تنخواہوں اور دیگر آپریٹنگ اخراجات جیسے بنیادی کاروباری اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جائز آمدنی کی کمی تھی"۔
SEC کے مطابق، اس مدت کے دوران، ان اداروں نے ڈیفالٹس کو روکنے کے لیے "سرمایہ کاروں کے کروڑوں ڈالر استعمال کیے"۔ SEC کا دعویٰ ہے کہ اس کی نازک مالی حالت کے باوجود، 2015 میں، ابراج گروپ نے مسٹر نقوی کو 53.75 ملین ڈالر اور 2016 میں، 19.5 ملین ڈالر بطور تنخواہ اور بونس ادا کیے!
2018 کے اوائل میں، ابراج گروپ آخرکار اپنے قرضوں میں نادہندہ ہو گیا، جس نے اس کے دو قرض کے بوجھ تلے دبے پروجیکٹس کو مجبور کیا کہ وہ عدالت کے زیر نگرانی اپنی تنظیم نو پر مجبور ہو جائیں۔ جون 2018 میں، ابراج ہولڈنگز اور ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ نے رضاکارانہ طور پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا اور کیمن جزائر کی گرینڈ کورٹ میں لیکویڈیشن کی کارروائی میں داخل ہو گئے۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز (PWC) کو ابراج ہولڈنگز کا مشترکہ عارضی لیکویڈیٹر مقرر کیا گیا تھا، اور ڈیلوئٹ کو ابراج انویسٹمنٹ مینجمنٹ کا مشترکہ عارضی لیکویڈیٹر کیمین جزائر کی گرینڈ کورٹ نے مقرر کیا تھا۔ نئے مینیجرز نے ابراج گروپ کے کچھ فنڈز کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ PWC اور Deloitte کو ابراج گروپ کے دیگر فنڈز کے لیے موصول ہونے والی بولیوں کا جائزہ لینے کے لیے مقرر کیا گیا تھا۔
ابراج کی کمپنیوں کے دیوالیہ ہونے کے بعد بھی کوئی پتہ نہیں چلا کہ کے الیکٹرک میں لگا ہوا سرمایہ کس کا ہے۔
مسٹر نقوی اس وقت لندن میں اپنے گھر میں نظر بند ہیں جب تک ان کی امریکہ حوالگی زیر التواء ہے۔ 2019 میں، دبئی فنانشل سروسز اتھارٹی نے ابراج گروپ کی دو کمپنیوں کو 315 ملین ڈالر کا جرمانہ کیا، اور متحدہ عرب امارات کی ایک عدالت نے غیر حاضری میں مسٹر نقوی کو تین سال قید کی سزا سنائی۔
کے ای کے لیے ان پیش رفتوں کے سنگین قانونی اثرات مرتب ہوئے۔ 2009 میں، پاکستان نے کے ای کا کنٹرول خاص طور پر ابراج گروپ کو منتقل کر دیا، 2018 میں ابراج گروپ کے ای ایس پاور پر اپنا کنٹرول کھو بیٹھا۔ اب، کے ای ایس پاور ممکنہ طور پر ابراج گروپ کے فنڈز کے عارضی لیکویڈیٹرز یا نئے منیجرز کے زیر کنٹرول ہے۔ چونکہ KES پاور KE کے زیادہ تر ڈائریکٹرز کی تقرری کرتی ہے، KE کے کنٹرول میں تبدیلی واضح طور پر جون 2018 میں ہوئی تھی، جسے پاکستان نے غیر دانشمندانہ طور پر نظر انداز کر دیا۔ 2018 کے بعد سے، کے ای ایک کپتان کے بغیر چل رہا جہاز ہے، جو اس کی ناقابل یقین حد تک خراب کارکردگی کی داستان رقم کرتی چلی جا رہی ہے۔
تمام حکومتیں حسد کے ساتھ حساس کاروبار میں شامل کمپنیوں کی ملکیت اور کنٹرول کی حفاظت کرتی ہیں۔ امریکہ نے قومی سلامتی کے خدشات کا حوالہ دیتے ہوئے متعدد چینی مواصلاتی کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ 2006 میں، دبئی کی حکومت کی ملکیت میں ڈی پی ورلڈ نے پانچ امریکی پورٹ ٹرمینل سہولیات پر کنٹرول چھوڑ دیا جب امریکیوں نے قومی سلامتی کی بنیاد پر اس کی مخالفت کی۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان نے کے الیکٹرک کا کنٹرول لیکویڈیٹرز کے پاس کیوں جانے دیا؟ نیپرا کے پاس قانونی اختیار ہے کہ وہ لائسنس یافتہ کا لائسنس معطل یا منسوخ کر دے یا اگر لائسنس یافتہ کنٹرول کھو دے یا اس سے دستبردار ہو جائے تو ایڈمنسٹریٹر مقرر کر دے — اس اختیار کو استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟
کنٹرول کی غیر مجاز تبدیلی کو روکنے کے لیے، معاہدے میں ہمیشہ ایک شق موجود ہوتی ہے جو سرمایہ کار کے دیوالیہ پن، تنظیم نو یا کنٹرول میں تبدیلی کو ڈیفالٹ کا واقعہ قرار دیتی ہے جو حکومت کو فوری طور پر کمپنی پر قبضہ کرنے، ایڈمنسٹریٹر مقرر کرنے یا ختم کرنے کی اجازت دی۔ ریاست کے پاس کے ای کی تباہی روکنے کا اختیار موجود ہے تاہم ابراج گروپ کے اصل مالکوں کی طرح یہ راز بھی کسی کو نہیں معلوم کہ ریاست اس نے کے الیکٹرک کو کراچی کے ساتھ تباہی کی اجازت کیوں دی۔