(امانت گشکوری)ججز کے خط پر سپریم کورٹ میں ازخودنوٹس کی سماعت،چیف جسٹس نے کہا ہے کہ آپس میں مشاورت کے بعد فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے۔ 29 یا 30 اپریل کو آئندہ سماعت ہوسکتی ہے ۔ ہمارا آج کا حکم یہ سمجھا جائے کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا۔سپریم کورٹ کو ججز کے معاملے پر جواب لازمی دینا چاہیے۔یہ کہنا غلط ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنا اختیار حکومت کو دے دیا ہے۔سپریم کورٹ کے اختیارات کسی اور کو کیسے دیئے جاسکتے ہیں؟آئین کے مطابق سپریم کورٹ کمیشن نہیں بنا سکتی۔ یہ اختیار وفاقی حکومت کے پاس ہے۔چیف جسٹس نے جسٹس ریٹائرڈ تصدق حسین جیلانی پر بے جا تنقید پربھی افسوس کا اظہار کیا ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 7رکنی بنچ سماعت کررہاہے،بینچ میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی،جسٹس جمال خان مندوخیل ،جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی،جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں ۔
مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ وزیر اعظم سے ہم نے ملاقات ایگزیکٹو معاملہ پر کی،وزیر اعظم کو جب بتایا تو انھوں نے کہا فوری ملاقات کرتے ہیں،وکلا کہتے ہیں سوموٹو لے لو، پھر وکلا کو وکالت چھوڑ دینی چاہیے،چیف جسٹس کا حامد خان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو وکلا نمائندے کے طور پر نہیں لے سکتا، وکلا کے نمائندے کے طور پر بار کے صدر موجود ہیں۔
سماعت کے آغاز پر وکیل حامد خان نے کہا ہم نےلاہورہائیکورٹ بارکی طرف سے ایک پٹیشن کل دائر کی ہے، لاہور بار سب سے بڑی بار ہے جس نے پٹیشن دائر کی ہے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا حامد خان آپ سے زیادہ قانون کون جانتا ہے، اب وہ زمانےچلے گئے جب چیف جسٹس کی مرضی ہوتی تھی، اب تین رکنی کمیٹی ہے جو کیسز کا فیصلہ کرتی ہے، نہ کمیٹی کو عدالت کا اختیار استعمال کرنا چاہیے نہ عدالت کو کمیٹی کا اختیار استعمال کرنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کمیٹی کو عدالت اور عدالت کو کمیٹی کے کام میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے، چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا آپ نے کوئی درخواست دائر کی ہےتو کمیٹی کو بتائیں، پٹیشنز فائل ہونے سے پہلے اخباروں میں چھپ جاتی ہیں، کیا یہ پریشر کیلئے ہے؟ میں تو کسی کے پریشر میں نہیں آتا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے نئی چیز شروع ہو گئی ہے، وکیل کہہ رہے ہیں ازخود نوٹس لیں، جو وکیل ازخود نوٹس لینے کی بات کرتا ہے اُسے وکالت چھوڑ دینی چاہیے۔ان کا کہنا تھا جمہوریت کا یہ تقاضا ہے کہ آپ مان لو کہ مخالف جیت گیا ہے، میں انفرادی طورپر وکلا سے نہیں ملتا، بارکے نمائندے کےطورپر ملتا ہوں۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو فل کورٹ کے بعد جاری پریس ریلیز پڑھنے کی ہدایت کردی ۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں، اٹارنی جنرل نے عدالت میں پریس ریلیز پڑھ کر سنائی ۔
ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں: چیف جسٹس
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حکومت سپریم کورٹ کے ساتھ ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ ہم شاید پروپیگنڈا میں گوئبلز کے زمانے کو واپس لا رہے ہیں،پہلے جو طرز عمل تھا چیمبر میں آگئے کیس لگ گیا اب وہ ختم کر دیا،ہم دوسروں پر انگلی اٹھاتے ہیں پہلے خود پر اٹھانی چاہیے،درخواست دائر ہونے سے پہلے اخبار میں چھپ جاتی ہے، کیا یہ بھی پریشر ڈالنے کا طریقہ ہے؟میں تو پریشر نہیں لیتا،فیصلوں سے دیکھنا چاہیے پریشر تھا یا نہیں۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دئیے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر آجاتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر حکومت نے انکوائری کمیشن بنایا،خط کا ایک حصہ سپریم جوڈیشل کونسل بارے ہے اس کو سپریم کورٹ نے دیکھنا ہے،چیف جسٹس پاکستان بولے کہ یہ کہنا کہ سپریم کورٹ نے اپنا اختیار حکومت کو دے دیا یہ غلط ہے،آئین کو ہم نے چھوڑ دیا ہے،سپریم کورٹ کے اختیارات کسی اور کو کیسے دیئے جاسکتے ہیں،ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا چاہیے،ہوسکتا ہے ہمارا ادارہ پہلے حدود سے نکلا ہو مگر اب ایسا نہیں ہے،آئین کے مطابق سپریم کورٹ کمیشن نہیں بنا سکتی،وفاقی حکومت کے پاس انکوائری کمیشن بنانے کا اختیار ہے۔
سیٹ بیلٹ باندھ لوں،چیف جسٹس کے ریمارکس پر قہقہہ لگ گیا
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ عدالت کے سامنے کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں،عدلیہ کی آزادی پر حکومت کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گی،اسفند یار ولی سمیت مختلف مقدمات میں عدلیہ کی آزادی واضح کی گئی،2017 سے 2021 تک جو کچھ ہوا سب کے سامنے ہے،آپ کو شاید میری بات مناسب نہ لگے،چیف جسٹس بولے کہ میں پھر سیٹ بیلٹ باندھ لوں،چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کے مکالمہ کے دوران عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
اٹارنی جنرل نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ کو قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور اس وقت کی حکومت ایف آئی آر درج نہیں کر رہی تھی،چیف جسٹس بولے میری بات رہنے دیں،اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ میں آج یہ بات کرونگا کہ چیف جسٹس کی اہلیہ گئیں مگر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی،اس وقت کی حکومت کا تعاون اور موجودہ حکومت کا تعاون سب کے سامنے ہے،مرزا شہزاد اکبر اور دیگر کیخلاف پی ٹی آئی حکومت میں ایف آئی آر نہیں ہوئی،شکایت میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے شہزاد اکبر کا نام دیا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ سپریم کورٹ میں ریفرنس آیا ،جس پر وزیر اعظم نے بعد میں معذرت کی،جج کیخلاف ریفرنس پر جو معذرت کی گئی اس پر حکومت نے کیا ایکشن لیا،چیف جسٹس قاضی فائزوعیسیٰ بولے کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کو ججز کے معاملے پر جواب لازمی دینا چاہیے،سیشن جج ہو یا ہائیکورٹ کا جج سب کی آزادی لازمی ہے،اگر آج سپریم کورٹ نے کچھ نہ کیا تو یہ معاملہ دب جائے گا۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے ہیں کہ سپریم کورٹ نے 9 مئی واقعات میں کچھ ملزمان کو ضمانت دی،سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ایم پی او کے تحت ملزمان کو پکڑ لیا گیا،کیا عدالتی احکامات پر حکومت ایسے عمل کرتی ہے،جسٹس نعیم اختر افغان بولے کہ اٹارنی جنرل صاحب !آپ نے کہا تعاون کرینگے مگر زبان سے مکر رہے ہیں،ایک کیس میں جب ضمانت دی گئی تو دوبارہ کیوں ایم پی او لگا کر پکڑا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ یا جمہوریت پر یقین کریں یا پھر نہ کریں،ایسا نہیں ہو سکتا کہ بس میری چلے، اگلی بار آپ الیکشن جیت کر آ جائیے گا، جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ باتیں سب کرتے ہیں کوئی کرنا نہیں چاہتا،آپ کی حکومت مرزا افتخار کیس کو منطقی انجام تک لے گئی ہوتی تو آپ بات کرتے۔ چیف جسٹس بولے کہ وہ کیس میرے متعلق ہے ،نہیں چاہتا تاثر جائے دباؤڈال رہا ہوں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دئیے کہ مجھےبات پوری کرنے دیں،یہ درست ہے سیاسی انجینئرنگ ہوتی رہی اور شاید عدالت بھی ملوث تھی،ججوں کا خط بتا رہا ہے یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے،وی وی آئی پی کلچر کو ختم کرنا ہوگا،بنیادی انسانی حقوق کو عدالت کیسے نظرانداز کر سکتی ہے،جو کچھ ہورہا ہے عدالت اس پر آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔چیف جسٹس بولے کہ ایک سال کے بعد ججز نے دباؤبارے بتایا جس پر ایکشن لیا،جو کچھ میرے سامنے نہیں ،اس کا ذمہ دار میں نہیں۔
صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن انکوائری کمیشن کی حمایت کرتی ہے،انکوائری کمیشن سے ہی تحقیقات ہونی چاہئیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے کی وجہ ججز کی عدم دستیابی تھی،سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ بار سے تحریری معروضات طلب کر لیں،چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پھر بولے کہ ممکن ہے میں ایک ہفتہ لاہور اور ایک ہفتہ کراچی رہوں،باقی ججز سے مشورہ کرکے جلد بھی سماعت کی جاسکتی ہے،ہم روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کرینگے،آپس میں مشاورت کے بعد فل کورٹ تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے،آج کا ہمارا حکم یہ سمجھا جائے کہ عدلیہ کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا،عید تک کچھ ججز لاہور اور کراچی ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہم ہائیکورٹ کے اختیارات میں مداخلت نہیں کریں گے،ہائیکورٹ کو توہین عدالت کا نوٹس کرنا چاہیے تھا،مگر اس معاملے پر فیصلہ دینا بہت اہم ہے،چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے ہیں کہ29 یا 30 اپریل کو آئندہ سماعت ہوسکتی ہے،مشاورت کے بعد حتمی تاریخ بتائیں گے،آج ہم کچھ سوال سامنے رکھ رہے ہیں،ہوسکتا ہے آئندہ سماعت پر فل کورٹ بنچ تشکیل دیں،کچھ ججز اسلام آباد نہیں ، اس لیے جو دستیاب تھے ان کا بنچ تشکیل دیا،سٹس منصور علی شاہ بولے کہ ہائیکورٹ یا ماتحت عدلیہ کے ججز شکایت کریں تو اس پر ایکشن ہونا چاہیے،متعلقہ عدالت کے جج کے چیف جسٹس کو معاملہ دیکھنا چاہیے،عدلیہ کی آزادی پر فیصلہ کرنا بہت ضروری ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے ہیں کہ اس خط کو سامنے رکھ کر عدلیہ کی آزادی واضح ہونی چاہیے،مجھے بھی تو لگے کہ میں آزاد ہوں،سپریم کورٹ نے ازخودنوٹس کیس کی سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی ۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز نے عدالتی امور میں مداخلت سے متعلق خط لکھا تھا،خط کے بعد حکومت نے ایک رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا تھا،انکوائری کمیشن کی سربراہی سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کو دی گئی تھی۔تصدق جیلانی نے حکومت کو خط لکھ کر کمیشن کی سربراہی سے معذرت کرلی تھی۔
سابق چیف جسٹس تصدق جیلانی کی معذرت کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ہے۔