سٹی42: اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججوں کے خط میں لگائے گئے الزامات پر چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی کے ازخود نوٹس پر سات رکنی لارجر بنچ آج سماعت کرے گا۔ یہ سماعت سپریم کورٹ کے مرکزی کورٹ روم نمبر ون میں ہوگی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیٰسی7 رکنی لارجر بینچ کی سربراہی کریں گے، لارجربینچ میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیٰی آفریدی ، جسٹس جمال خان مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللہ ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
اس معاملے پر مختلف وکلاء اور لاہور ہائی کورٹ بار نے بھی آئینی درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کر دی ہیں تاہم یہ واضح نہیں کہ سپریم کورٹ اپنے لئے ہوئے سوؤ موٹو نوٹس کیس میں ان درخواستوں کو بھی شامل کرے گی یا نہیں۔
بظاہر ان تمام درخواستوں میں سے کسی کو بھی آئین کے آرٹیکل 184 (3) کے تحت سپریم کورٹ میں سماعت کے لئے قبول کیا جانا محال ہے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی بھی کسی متاثرہ فریق کی جانب سے نہیں۔
لاہور ہائی کورٹ بار کی جانب سے پی ٹی آئی کے حامد خان نے درخواست دائر کی جس میں حکومت کے انکوائری کمیشن کو غیر آئینی قرار دینے، الزامات کی انکوائری کے لیے سپریم کورٹ کے ججوں پر مشتمل جوڈیشل کمیشن بنانے اور مداخلت کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کی استدعا کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لے کر خط کے معاملہ کو کھلی عدالت میں سننے کے فیصلہ کے بعد اس درخواست کی ضرورت ختم ہو چکی ہے۔
اعتزاز احسن کی دائر درخواست میں میمو کمیشن کی طرز پر جوڈیشل کمیشن بنانےکی استدعا کی گئی ہے۔ میاں داؤد ایڈووکیٹ کی دائر درخواست میں بھی جوڈیشل کمیشن بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔
26 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے 6 ججز نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا تھا جس میں اپنے کام میں خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا، اس خط مین چھ ججوں نے بظاہر اس ممفروضہ صورتحال پر سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی مانگی تھی۔ لیکن اس راہنمائی کی نوبت آنے سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے سینکڑوں لوگوں نے جن میں وکیل اور سوشل میڈیا انفلوئنسر پیش پیش ہیں اس خط کے مندرجات کو پاکستان کے ریاستی اداروں کے خلاف چارج شیٹ بنا ڈالا ہے۔
آج کی سماعت میں عدالت کے سامنے پہلا سوال ہی یہ آئے گا کہ اس خط کے مندرجات کیا ہیں اور ان میں کتنی حقیقت ہے، ان الزامات کو ویریفائی کرنے اور حقائق تک پہنچنے کا کیا طریقہ ہے۔ عدالت کے سامنے یہ بھی سوال ہے کہ آرٹیکل 184 (3) کے تحت عدالت خود تحقیقات نہیں کر سکتی۔ یہ کام کسی تحقیقاتی ادارہ کو ہی کرنا ہوتا ہے۔ اس معاملہ میں دستیاب واحد تحقیقاتی ادارہ ایف آئی اے ہو سکتا ہے یا اسلام آباد پولیس اس سوال کا جواب سماعت میں سامنے آ سکتا ہے۔
چھ ججوں کے خط کے مندرجات کی تحقیق کرنے کے لئے پہلے وزيراعظم شہباز شریف نے چیف جسٹس اور پوری سپریم کورٹ کی مشاورت سے انکوائری کمیشن بنایا تھالیکن بعد میں چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لے کر کیس سماعت کےلیے مقرر کردیا۔