ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

فوج سے مذاکرات؛ پی ٹی آئی این آر او  مانگ رہی ہے، وہ نہیں ملے گا، خواجہ آصف

Khwaja Asif Ali, National Asswmbly, PTI, NRO. Rouf Hassan, VOA interview, city42
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے قومی اسمبلی  میں پی ٹی آئی کی  سیاسی جماعتوں کی بجائے"فوج کے ساتھ مذاکرات  کرنے کی ضد پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے "این آر او" مانگنے کی کوشش قرار دیا ہے۔

 وزیر دفاع  خواجہ آصف نے قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی آئی والے این آر او مانگ رہے ہیں، رؤف حسن ترلے کر رہے ہیں کہ این آر او دے دو، بانی پی ٹی آئی کہہ رہے ہیں کہ فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے ہیں، یہ اُن کا پرانا نشہ ہے۔ انہیں  یہ بھی یاد نہیں کہ اب نہ فیض ہے نہ پاشا نہ باجوہ۔

پی ٹی آئی کو یاد دلاتے ہوئے کہ ان کے ماضی کے محسن اب اقتدار میں نہیں رہے، وزیر دفاع نے کہا: "یہ ایک نیا نظام ہے جس میں نئی ​​قیادت ہے۔"

پیر کی شام کو وزیر دفاع اور مسلم لیگ نون کے سینئیر لیڈر خواجہ آصف کا قومی اسمبلی میں دھواں دھار خطاب پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کے غیر ملکی ریڈیو وائس آف امریکہ سے انٹرویو کے بعد آیا ہے، رؤف حسن نے اس انٹرویو میں  "امید اور دعا " کی  کہ فوج اور ان کی پارٹی کے درمیان "تعطل " مزید جاری نہ رہے۔

وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں رؤف حسن نے یہ بھی  کہا، "ریاست کے مفاد میں، یہ ضروری ہے کہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ بات چیت میں شامل ہوں،" انہوں نے مزید کہا کہ پارٹی نے "اس تعطل کو ختم کرنے" میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔

سابق حکمراں جماعت پی ٹی آئی نے طویل عرصے سے اس موقف کو برقرار رکھا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے بجائے صرف ان طاقتوں سے بات چیت کرے گی۔

رؤف حسن کے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں فوج سے مذاکرات کی خواہش کے متعلق واضح  گفتگو سامنے آنے کے بعد آج قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی  کی قیادت شدت سے "این آر او"   کی خواہاں ہے۔ پی ٹی آئی رہنما رؤف حسن این آر او کے لیے ’بھیک‘ مانگ رہے ہیں خواجہ آصف  نے کہا کہ 9 مئی کے واقعے میں ملوث افراد کو کوئی ریلیف فراہم نہیں کیا جائے گا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی کی قیادت سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے سے گریزاں ہے۔

نو مئی کے واقعات کیا ہیں?

نو مئی 2023 کو پی ٹی آئی کے لیڈر عمران خان کے پرتشدد مظاہروں میں فوجی تنصیبات سمیت ریاستی املاک پر حملے دیکھنے میں آئے تھے، سول اور فوجی حکام نے آرمی ایکٹ کے تحت فسادیوں کو قانونی کارروائی کے ذریعہ قرار واقعی سزا دینے کے عزم کا اظہار کیا تھا، یہ کارروائی اب تک عدالتوں میں جاری ہے۔

 انہوں نے "جس گود" میں پرورش پائی وہ گود باربار یاد آتی ہے، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ انہیں ریلیف دے، بانی پی ٹی آئی تو فوج سے مذاکرات چاہتے ہیں، محمود اچکزئی بھی بتا دیں کہ اس معاملے پر محمود اچکزئی کا کیا مؤقف ہے۔

خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی والے جس سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کر لیں، اگر اسٹیبلشمنٹ ان سے مذاکرات نہیں کرتی تو وہ  ان کی منت کرنے کا کوئی اور طریقہ ڈھونڈ لیں، ہمیں کوئی مسئلہ نہیں مگر ایک بات بتا دوں، جب تک 9 مئی واقعات کا حساب نہیں ہو گا، کسی سے کوئی مذاکرات نہیں ہوں گے۔

خواجہ آصف نے کہا  کہ میرا نہیں خیال جب تک 9 مئی کامسئلہ منطقی انجام تک نہیں پہنچتا، اسٹیبلشمنٹ مذاکرات کرے گی۔

رؤف حسن ان لوگوں سے این آر او کی بھیک مانگ رہے ہیں جن کے بارے میں وہ یقین رکھتے ہیں کہ حقیقی طاقتیں ہیں،"  خواجہ  آصف نے کہا کہ عمران خان "صرف" اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اور این آر او چاہتے ہیں۔

"این آر او " کیا ہے؟

12 سال سے زائد عرصہ پہلے  5 اکتوبر 2007 کو اس وقت کے صدر اور آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس جاری کیا تھا جس کے تحت  قتل اور دہشت گردی، بدعنوانی، منی لانڈرنگ کے الزامات میں ملوث سیاستدانوں، سیاسی کارکنوں اور بیوروکریٹس کو معافی دی گئی تھی۔

محمود اچکزئی سے براہ راست سوال

آج کے خطاب میں  وزیر دفاع نے کچھ عرصہ سے پی ٹی آئی کے سیاسی حلیف سینئیر سیاستدان ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (PkMAP) کے چیئرمین محمود خان اچکزئی کو ان کے حلیف سے الگ کرتے ہوئے پوچھا  کہ وہ فوج کے ساتھ مذاکرات کرنے  کی خواہش کے متعلق کیا کہتے ہیں۔  پی ٹی آئی کے بانی نے  محمود خان اچکزئی کو سیاسی جماعتوں سے  مذاکرات کے سلسلہ  میں "ٹاسک" دیا تھا - کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کریں گے؟

"وہ [پی ٹی آئی] کہتے ہیں کہ اچکزئی اپوزیشن اتحاد " تحریک تحفظ  پاکستان" کے سربراہ ہیں اور وہ مذاکرات کریں گے،"  خواجہ آصف نے محمود اچکزئی سے کہا کہ وہ فیصلہ کریں کہ وہ کس کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔

اس سے پہلے دن میں، آصف نے ایک نیوز چینل کے شو میں آج اپنی قومی اسمبلی میں گفتگو کے حوالے سے بات  کرتے ہوئے میڈیا کی ان خبروں کو مسترد کیا کہ مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے ان کی پارٹی کو پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کرنے کی ہدایت کی ہے۔

انہوں نے ایک روز قبل ہونے والے پارٹی اجلاس کے بارے میں کہا کہ "ہم نے میٹنگ کے دوران صرف دو موضوعات پر توجہ مرکوز کی، ایک پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اور دوسرا بجلی کی قیمتوں میں کمی"۔

 خواجہ آصف نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے پہلےکہا سیاسی جماعتوں سے بات کرنی ہے، آج پھر ان کا بیان آیا  کہ بات نہیں کرسکتے اور 8 فروری کے انتخابات تسلیم کرناہوگا، ان کے بیانات میں تضاد ہے۔

نو مئی کو پاکستان کی سالمیت کی ریڈ لائن کراس ہوئی

خواجہ آصف  نے کہا کہ اس سارے سلسلے میں عدالتیں بہت بڑا معاملہ ہیں، 9 مئی کوپاکستان کی سالمیت کی ریڈ لائن کراس ہوئی ہے، بانی پی ٹی آئی پہلے بتائیں 9 مئی، مذاکرات اورالیکشن پرکیا مؤقف ہے؟

ان کا کہنا تھاکہ محمود اچکزئی قومی ڈائیلاگ کی بات کر رہے ہیں، بانی پی ٹی آئی اس لیے اچکزئی کو آگےکررہےہیں تاکہ کل کو مکر سکیں، پی ٹی آئی کی سیاست کا  کوئی سر پیر نہیں ہے، پی ٹی آئی اپنے مؤقف میں تسلسل تو لائے، ایک دن بڑھکیں دوسرے دن منتیں، یہ کوئی سیاست ہے ۔  بانی پی ٹی آئی کے بیانات میں تبدیلی سے انہیں اور قوم کو نقصان ہوا ہے۔

خواجہ آصف کا کہنا تھاکہ 9 مئی" فالس فلیگ آپریشن"  تھا تو بانی پی ٹی آئی اب ان سے بات کیوں کرنا چاہتے ہیں؟ محمود اچکزئی سے کہوں گا ان سے بچ کر رہنا ، یہ آپ کو خراب کریں گے، معاملات حل کرنے کیلئے حکومت، اسٹیبلشمنٹ، پی ٹی آئی اورعدلیہ بھی بیٹھے۔

 خواجہ آصف نے کہا کہ پی ٹی آئی والے حکومت کے ساتھ بھی اگر مذاکرات کریں تو 9 مئی کا حل پہلے ہوگا، 9 مئی کا حل نکلنا ضروری ہے، اگر اسے نظراندازکیاگیا تویہ کل پھرکریں گے۔

افغانستان سے دراندازی

افغانستان سے متعلق وزیر دفاع کا کہنا تھاکہ  افغان شہری پاکستان آکر دہشتگردی کر رہے ہیں، اس کے تمام ثبوت موجود ہیں اب ہر چیز سوشل میڈیا پر موجود ہے، ثبوت ہونے کے باوجود وہ نہیں مانتے تو یہ برادرہمسائیہ ملک کی زیادتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 80 کی دہائی میں ہم لوگوں نے جو نقصانات اٹھائے وہ سب کے سامنے ہیں، اس وقت افغانستان سے کوئی رابطہ نہیں ہے، اگر رابطہ ہے بھی تو اس کے کوئی خاطر خواہ نتائج نہیں نکل رہے، میں بھی اس سلسلے میں افغانستان گیا تھا ان کا رسپانس بھی ٹھیک تھا، افغانستان پاکستان میں ہونےوالی دہشتگردی کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔