ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

پٹھان بیوروکریسی کی باز گشت

پٹھان بیوروکریسی کی باز گشت
کیپشن: City42 - Qaiser Khokhar
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

(قیصر کھوکھر ) ایک وقت تھا پاکستان میں چھوٹی "ی"والے افسران کو اہم تعیناتیاں دی جاتی تھیں۔ مسلم لیگ (ن) کے دور میں کشمیری افسران کا راج رہا ہے اور اب جیسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت نے چارج سنبھالا ہے تو ملک میں پٹھان بیوروکریسی کے افسران کو چن چن کر اہم اور کلیدی آسامیوں پر تعینات کیا جانے لگا ہے، جس کے نام کے ساتھ "خان " ہوتا ہے، اسے اہم تقرری دی جاتی ہے۔

چودھری پرویز الٰہی کے دور میں پنجاب میں جاٹ افسران کو آگے لایا جاتا رہا ہے، جن کے نام کے ساتھ چیمہ ، چٹھہ یا وڑائچ ہوتا تھا، انہیں اہم تقرری دی جاتی تھی اور اراکان اسمبلی جو جاٹ برادری سے تعلق رکھتے تھے، ایوان وزیر اعلیٰ میں بھی انہیں خاص اہمیت دی جاتی تھی۔ اب جیسے ہی پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے، وفاق اور صوبوں میں پٹھان افسران کو آگے لایا جا رہا ہے ۔وزیر اعلی نے حلف اٹھاتے ہی پٹھان افسر اعظم خان کو پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم تعینات کر دیا، جس کے ساتھ ہی پٹھان افسران کی ایک لسٹ تیار کی گئی۔ چیئرمین ایف بی آرڈاکٹر جہانزیب خان اور ڈی جی انٹیلی جنس بیورو سلیمان خان کو تعینات کیا گیا۔ پریس سیکرٹری ٹو وزیر اعظم بھی ایک پٹھان افسر ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر بھی پٹھان ہیں اور ڈپٹی سیکرٹری کا عہدہ بلوچستان کو دیا گیا لیکن بلوچستان سے کسی بلوچ کی بجائے ایک پٹھان کو ہی ڈپٹی سپیکر بنایا گیا ہے۔

پنجاب کے سینئر وزیر عبدالعلیم خان بھی پٹھان ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے پولیس ریفارمز ناصر خان درانی بھی پٹھان ہیں۔ چیف سیکرٹری پنجاب اکبر حسین درانی بھی ایک پٹھان افسر ہیں۔ وزیر اعظم خود بھی ‘‘خان’’ ہیں تو تمام خان آگے آنے لگے ہیں۔ ڈاکٹر جہانزیب خان جنہیں چیئرمین ایف بی آر لگایا گیا ہے، وہ پنجاب میں سیکرٹری لائیو سٹاک، سیکرٹری ہیلتھ، سیکرٹری خزانہ اور چیئرمین پی اینڈ ڈی رہ چکے ہیں، انہی کے دور میں پنجاب کے انرجی منصوبے اور اورنج ٹرین اور میٹرو بس منصوبے بنے، جن کے بارے میں آج کل نیب انکوائری کر رہا ہے لیکن اب انہیں صرف خان ہونے کی بنا پر چیئرمین ایف بی آر لگا دیا گیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے دور میں کشمیری افسران کو تمام اہم ترین آسامیوں پر تعینات کیا گیا تھا، جن کے نام کے ساتھ ڈار، بٹ، خواجہ یا کشمیری لگتا تھا انہیں یا تو وفاقی وزیربنا دیا جاتا تھا یا افسر ہونے کی بنا پر اہم ترین پوسٹنگ دی جاتی تھی۔ اب حکومت بدل گئی ہے، تو نئی حکومت کی ترجیحات بھی بدل گئی ہیں۔ کے پی کے میں ایک پشاور وادی ہے جبکہ ہزارہ ڈویژن اور ڈی آئی خان کو نظر انداز کر کے تمام صوبے کے پی کے میں بھی عہدے پٹھانوں کو دیئے گئے ہیں۔ ہزارہ برادری کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

پنجاب میں نان پنجاب بیوروکریسی کو آگے لانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں۔ پاکستان میں شروع دن سے ہی افسر شاہی کو اپنے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ جو بھی اقتدار میں آتا ہے من پسند افسران کو آگے لاتا ہے۔ شہباز شریف کے دور میں ان افسران کو تقرری دی جاتی تھی جو یا تو کشمیری ہوتے تھے یا پھر جو ایوان وزیر اعلیٰ میں کام کرتے تھے اور شہباز شریف انہیں ذاتی طور پر جانتے ہوتے تھے۔ اب کیونکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے پنجاب اور وفاق میں پہلی بار اقتدار سنبھالا ہے، انہیں بیوروکریسی کے چناﺅ میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑ رہا ہے اور پہلے مرحلے میں پی ٹی آئی کی حکومت وفاق میں پٹھان افسران کو آگے لا رہی ہے۔

 وزیر اعظم کے مشیر برائے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن ارباب شہزاد تمام قسم کے تقرر و تبادلے کرنے میں پیش پیش ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ بیورو کریسی کو غیر سیاسی کیا جائے اور جیسا کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے عوام سے وعدہ کر رکھا ہے کہ وہ اداروں کو مضبوط کرے گی اور پولیس اور انتظامیہ کو فعال اور غیر سیاسی کرےگی ۔لہٰذا بیوروکریسی کو غیر سیاسی کرنے کےلئے ان کی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق ٹریننگ اور میرٹ پر تقرری ضروری ہے، جب افسر شاہی غیر جانبدار ہو گی اور غیر سیاسی ہوگی تو ادارے مضبوط ہونگے اور ملک و قوم ترقی کرینگے اور عوام کے مسائل از خود حل ہونگے اور لوگوں کو سرکاری دفاتر میں جاتے وقت کسی قسم کی دقت یا پریشانی نہیں ہو گی۔

 عوام کو ہر دفتر سے انصاف ملے گا۔ بیوروکریسی میں اصلاحات کی بھی ضرورت ہے، بھرتی سے لےکر ٹریننگ تک تمام جگہ پر اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے تاکہ میرٹ پر تقرریاں ہو سکیں تاکہ کوئی بھی آنے والی حکومت کشمیری، پٹھان یا جاٹ افسران یا چھوٹی ی’’"والے افسران کی بجائے اہل افسران کو ہی آگے آنے کا موقع ملے اور میرٹ کی بالادستی قائم ہو۔

 ایک ایسا سسٹم بنایا جائے تاکہ ہر آنے والی حکومت بیورو کریسی پر مکمل اعتماد کے ساتھ انحصار کر سکے اور بیوروکریسی بھی کسی حکومت کا حصہ بننے کی بجائے ریاست کے وفادار کے طور پر کام کر سکے۔ جب ہم ملک کے اہم ترین ادارے میں برادری ازم کا شکار ہونگے، تواس سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھنے کاخدشہ ہوتا ہے۔ نئی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نئے پاکستان میں کم ازکم ایسا سسٹم تشکیل دے دے جس سے برادری ازم ہو یاپارٹی ازم، اس کی حوصلہ شکنی ہوسکے اورمیرٹ کی بالادستی کے باعث ہی ملک میں ترقی ہوگی۔

قیصر کھوکھر

سینئر رپورٹر