’مسلمان ممالک کو نیٹو کی طرح کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے، لیکن افسوس مسلمان تقسیم کا شکار ہیں‘

2 Oct, 2024 | 09:39 PM

ویب ڈیسک : ممتاز اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائیک نےکہا ہےکہ غزہ کے لوگ جہاد کے ساتھ دعوت کا کام بھی سرانجام دے رہے ہیں اور ہمیں بھی اسلام سکھا رہے ہیں، اسے کہتے ہیں ایک تیر سے تین شکار۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلام آباد میں پاکستانی اینکرز سےگفتگو کی۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے غزہ کی صورتحال اور جہاد کے حوالے سے سوالات ہوئے، جن کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے  کہا کہ غزہ کے مسلمان اسلام کے تیسرے مقدس مقام ( مسجد اقصیٰ) کے دفاع کے لیے جہاد کرکے فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں۔ اگر غزہ کے لوگ جہاد نہیں کریں تو ہم پر فرض ہوجائےگا۔ ذاکر نائیک نے اس موقع پر  پاکستان کے معروف عالم دین اور صدر وفاق المدارس العربیہ مفتی تقی عثمانی کے گزشتہ دسمبر میں ایک کانفرنس میں دیےگئے فتوے کا حوالہ دیا، ذاکر نائیک کے مطابق مفتی تقی عثمانی نےکہا تھا کہ ہمیں جنگ بندی کے بجائے غزہ پر بمباری بندکرنےکا مطالبہ کرنا چاہیے اور غزہ کے لوگوں کو جہاد جاری رکھنا چاہیے، یہاں تک کہ فلسطین کی سرزمین سے آخری یہودی بھی نکل جائے۔ ذاکر نائیک کے مطابق ان کی نظر میں یہ ایک بہترین فتویٰ ہے، مفتی صاحب کے مطابق غزہ اور اطراف کے لوگوں کے لیے جہاد فرض ہے، اگر وہ نہیں کریں گے تو ان کے بعد جو قریب ہیں، پھر اسی طرح ہم پر بھی فرض ہوجاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ غزہ کے لوگ جو جدوجہد کر رہے ہیں اس نے ہماری آنکھیں کھول دی ہیں۔ہم جب قرآن وحدیث پڑھتے ہیں اور صحابہ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں کہ وہ کیسے تھے تو یقین نہیں آتا کہ آج کے دور میں بھی ایسے لوگ ہوسکتے ہیں کہ ایک ماں جس کا بیٹا شہید ہوگیا وہ کہتی ہیں کہ اگر میرے 10 بیٹے بھی ہوتے تو اللہ کی راہ میں قربان کردیتی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کے جذبے اور  ہمت کو جب غیر مسلم دیکھتے ہیں تو وہ متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے مغربی ممالک میں لاکھوں افراد نے قرآن کا مطالعہ کیا اور اسلام قبول کیا۔ غزہ کے لوگ جہاد کے ساتھ دعوت کا کام بھی سرانجام دے رہے ہیں اور ہمیں بھی اسلام سکھا رہے ہیں، اسے کہتے ہیں ایک تیر سے تین شکار۔

 فلسطین کی صورتحال پر ذاکر نائیک کا بیان

 فلسطین کی صورتحال پر مسلم دنیا کے اقدامات کے حوالے سے کیے جانے والے سوال پر ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا کہ مسلمان ممالک کو نیٹو کی طرح کا اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ نیٹو کے 32 ممالک ہیں ، اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہو تو تمام ممالک پر حملہ تصور ہوتا ہے۔ 57 اسلامی ممالک کو بھی نیٹو کے اصولوں پر مبنی ایک اتحاد تشکیل دینا چاہیے۔ اس طرح مسلمان ممالک ذیادہ طاقت ور ہوں گے، لیکن افسوس کے مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہر مسلمان کم ازکم دعا تو ضرور کرسکتا ہے اور اس کے لیے بہترین وقت تہجدکا ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں اس حوالے سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پرامن احتجاج کرنا چاہیے، احتجاج کافی مؤثر ہوتا ہے۔

ذاکر نائیک نے کہا کہ ہمیں اسرائیلی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا چاہیے، اس کے علاوہ مسلمانوں کو انفرادی طور پر جتنا بھی ہوسکے فلسطینیوں کی مالی امداد کرنی چاہیے، چاہیے 100 روپے ہوں یا 1000 روپے، اللہ تعالیٰ نیت کو دیکھتا ہے۔ مسلمانوں کو عالمی عدالت میں اسرائیل کے خلاف مقدمات کرنے چاہئیں۔ مسلمانوں کے میڈیا کو چاہیے کہ فلسطین کے حوالے سے آواز بلند کرے۔ اگر مسلمان قرآن و سنت پر عمل کریں گے تو اللہ کی مدد اور زیادہ آئے گی۔ اس کے علاوہ اگر مسلمان اسلامی نظام نافذ کریں اور خلافت کا قیام کریں تو ان شاءاللہ اس طرح کے مسائل کبھی نہیں ہوں گے۔

مزیدخبریں