ویب ڈیسک: بپڑھے لکھےبے روزگاروں سے لے کر بھوکے ننگے ناداروں تک سب کو پیسہ چاہئے، تھوڑا نہیں بہت سا پیسہ لیکن پیسہ آئے کہاں سے، پیسہ حاصل کرنا واقعہ مسئلہ تو ہے لیکن ایسا ناقابل حل مسئلہ بھی نہیں کہ مایوس ہی ہو جائیں، اس دنیا میں ایسی بھی جگہ ہے جہاں جا کر قست آزمانے سے بہت سا پیسہ چھپر پھاڑ کر تو نہیں البتہ زمین کھودنے سے مل جاتا ہے۔ یہ جگہ ہیروں سے بھری ایک سرزمین ہے جہاں جا کر ہیرے تلاش کرنے کا موقع ہر کسی کے لئے کھلا ہے۔
بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش کے دور دراز علاقہ مین واقع یہ علاقہ "پنا" کہلاتا ہے، یہ ایک دریا کے کنارے کا علاقہ ہے جہاں زمین واقعی ہیروں سے بھری پڑی ہے لیکن یہ ہیرے بہرحال قسمت کے دھنی لوگوں کو ہی ملتے ہیں۔
سوامی پال دین کی کہانی
سوامی دین پال کے گھر میں جشن کا ماحول تھا۔ پنا میں رہنے والا یہ خاندان حال ہی میں 32.8 قیراط کا ہیرا تلاش کرنے میں کامیاب ہوا تو یہ ان کی برسوں کی محنت کا نتیجہ تھا۔انھیں امید ہے کہ اس ہیرے کی فروخت سے انھیں ڈیڑھ کروڑ انڈین روپے (تقریباً پانچ کروڑ پاکستانی روپے) حاصل ہو سکتے ہیں۔
دیوالی کے قریب اس ہیرے کی نیلامی کی جائے گی اور حاصل ہونے والی رقم میں سے ایک مخصوص حصہ حکومت رکھے گی جبکہ باقی رقم سوامی کے کھاتے میں جمع کروا دی جائے گی۔ لیکن اتنا قیمتی ہیرا ملنے کے بعد بھی پال خاندان آرام کرنے یا رکنے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سوامی دین پال کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ایک طویل عرصے تک مزدوروں کے طور پر کام کیا، اپنا چھوٹا سا گھر بنایا۔ پھر عمر کے اس حصے میں بیٹے کے ساتھ مل کر ہیروں کی تلاش کے لیے ایک کان لگائی۔ چار پانچ سال تک ہمیں کچھ نہیں ملا۔ اب ہماری خواہش پوری ہو گئی ہے۔ امید ہے کہ اب حالات بہتر ہو جائیں گے۔‘
سوامی کے بیٹے جمنا پال نے بتایا کہ جس رات انھیں ہیرا ملا وہ سو نہیں سکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کا دل کیا کہ ’پوری رات ناچیں۔‘
وہ کہتے ہیں، ’اب میں صرف کان میں کام کروں گا۔ مجھے ہیرا مل گیا تو میں مزدوری نہیں کروں گا۔ اگر میرے پاس کھانے کو کچھ نہ ہوا تب بھی میں ہیرے کی کان میں ہی کام کروں گا۔‘
سوامی دین اکیلے نہیں۔ ان جیسے ہزاروں اور بھی ہیں جو ہیروں کی تلاش میں ملک کے کونے کونے سے مدھیہ پردیش کے اس چھوٹے سے قصبے پنا میں اپنی قسمت آزمانے آتے ہیں۔
یہاں آنے والے ہر فرد کے لیے ہیرے کی تلاش محض ایک خواب اور جنون نہیں بلکہ راتوں رات زندگی بدلنے کا ایک موقع ہے۔
نسلوں تک جاری رہنے والی ہیروں کی تلاش
انڈین بیورو آف مائنز کی 2022 کی سالانہ رپورٹ کے مطابق ملک میں موجود ہیروں کے 90 فیصد سے زیادہ ذخائر پنا میں ہیں۔ ان کی مقدار دو کروڑ 86 قیراط کے قریب ہے۔
مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال سے تقریباً 380 کلومیٹر دور واقع اس مقام کے لوگوں کی طرز زندگی، گفتگو اور توقعات غرض ہر چیز کا محور ہیرے ہیں۔
صبح ہوتے ہی یہاں ہزاروں لوگ ہیروں کی تلاش میں اپنے گھروں سے نکل جاتے ہیں۔
کئی خاندان ایسے بھی ہیں جو نسلوں سے ہیروں کی تلاش میں کوشاں ہیں۔ 67 سالہ پرکاش شرما بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں۔ ان کے قریبی لوگ انھیں کَکو کے نام سے پکارتے ہیں۔
پرکاش کے والد نے اپنی زندگی ہیروں کی تلاش میں گزار دی۔ وہ پنا میں ایک خیمے میں رہتے ہیں اور ہر صبح اپنے خواب یعنی ہیروں کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔
ٹھیک 50 سال پہلے انھیں پہلی بار ایک ہیرا ملا تھا۔ پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے اپنی تعلیم 1974 میں مکمل کی۔ ان دنوں کسی بھی محکمے میں اچھی نوکری مل سکتی تھی، لیکن میں نے کچھ اور ہی فیصلہ کر لیا تھا۔‘
وہ کہتے پیں ’انٹرمیڈیٹ پاس کرنے سے کچھ عرصہ قبل مجھے پہلا ہیرا ملا جو تقریباً چھ قیراط کا تھا اور پھر میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں صرف ہیروں کی تلاش کا کام کروں گا۔‘
پرکاش کا کہنا ہے کہ انھوں اپنے اس شوق کی وجہ سے زندگی بھر شادی نہیں کی۔ وہ اپنے بھائیوں اور ان کے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں۔
انھیں ہیروں کی تلاش کی ’لت‘ لگ چکی ہے۔ وہ کہتے ہیں ’یہ میرے لیے ایک نشے کی طرح ہے۔ اگر میں ہیروں کی تلاش میں نہ نکلوں تو میں بیمار سا محسوس کرنے لگتا ہوں۔‘
’ہیرے نے زندگی بدل دی‘
ملائم سنگھ پنا کے قریب واقع گاؤں راہونیا کے رہائشی ہیں۔ سنہ 2020 میں انھیں تقریباً 60 لاکھ انڈین روپے مالیت کا ہیرا ملا تھا اور ان کی قسمت بدل گئی۔
آج ملائم سنگھ کا ایک چھوٹا سا پکا گھر ہے اور وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم اور ان کی صحت کا بہتر خیال رکھنے کے قابل ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’ہم بچپن سے ہیروں کی کانوں میں کام کرتے آئے ہیں، میرے والد بھی یہیں کام کرتے تھے۔ ایک لمبے عرصے کے بعد ہماری قسمت کھلی۔‘
وہ کہتے ہیں ’ہم چار لوگوں نے مل کر ہیرے کی کان کنی کا کام شروع کیا تھا اور اب کی بار جب ہمیں ہیرے ملے تو ہم نے اس سے حاصل ہونے والی رقم سے ایک گھر بنایا، ایک فارم خریدا اور اپنے بچوں کو تعلیم دلوائی۔‘
کچھ لوگوں کے لیے ہیرے خواب ہی رہے
لیکن ہر کوئی سوامی دین پال یا ملائم سنگھ جیسا خوش نصیب نہیں ہوتا۔ اوڈیشہ (اڑیسہ) سے آئے سکھ دیو کئی سال سے تلاش میں ہیں لیکن وہ ہیروں کی چمک سے آج بھی محروم ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’میں نے یو ٹیوب پر ایک ویڈیو دیکھی تھی جس میں لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ پنا آ کر اپنی قسمت آزمائیں۔ میں نے اپنا سامان باندھا اور یہاں آگیا۔ لیکن آج تک میری قسمت نہیں کھلی۔‘
ان کی طرح امت شری واستو بھی برسوں سے ہیروں کی تلاش میں ہیں۔ وہ پنا کے سنگھ پور علاقے کے رہنے والے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہاں رنج ندی میں بہت سے ہیرے پائے جاتے ہیں۔ میں اس میں ہیرے تلاش کرتا ہوں۔ برسات کے موسم میں یہاں ہیرے ملتے ہیں۔‘ لیکن انھیں اب تک کامیابی نہیں ملی ہے۔
رمیش کسواہا پیشے سے ایک سبزی فروش ہیں لیکن وہ بھی راتوں رات امیر بننے کی خواہش میں ہیروں کی کھوج میں لگے رہتے ہیں۔
وہ برسات کے موسم میں ہیرے تلاش کرتے ہیں اور باقی وقت سبزیاں بیچ کر اپنا گزارا کرتے ہیں۔
’سبزی بیچ کر کوئی بھی فوری طور پر امیر نہیں بن سکتا اس لیے میں بھی ہیرے تلاش کرتا ہوں۔ میرا ایک دوست ہیروں کا کام کرتا ہے۔ اگر میری قسمت میں ہوا تو مجھے بھی ایک ایک دن ہیرا ضرور ملے گا۔‘
ہیرے ڈھونڈنے کے لیے کیا کرنا پڑتا ہے؟
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی پنا جا کر قانونی طور پر ہیرے تلاش کرنا چاہتا ہے تو اسے کیا طریقہ کار اختیار کرنا ہو گا؟
ریاست کے زیر کنٹرول نیشنل منرل ڈیولپمنٹ کارپوریشن پنا میں واقع مجھگاون کان کا انتظام دیکھتی ہے یہ انڈیا میں ہیروں کی پیداوار کا واحد منظم ذریعہ ہے۔
اس کے علاوہ پنا میں کوئی بھی قانونی طور پر آٹھ مربع میٹر کا پلاٹ لیز پر لے کر وہاں ایک سال تک ہیرے کی تلاش کے لیے کھدائی کر سکتا ہے۔
اس کے لیے اسے سالانہ صرف 200 روپے خرچ کرنے ہوں گے۔ لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ جو جگہ اس نے لیز پر لی ہے وہاں ہیرے ملیں گے۔ ایسے میں بہت سے لوگ اس سرکاری طریقہ کو اپنانے سے گریز کرتے ہیں۔
ہیرا مل جانے پر کیا کرنا پڑتا ہے؟
اگر کسی کو سرکار سے لیز پر لی گئی زمین میں ایک مخصوص مدت کے اندر ہیرا ملتا ہے تو وہ اس ہیرے کو حکومت کی طرف سے پنا میں مقرر کردہ سرکاری جوہری کے پاس لے جاتے ہیں جہاں جوہری ہیرے کو اس کے رنگ، چمک، شکل، نقائص وغیرہ کی بنیاد پر جانچتا ہے۔
اس کے بعد ہیرے کے مالک کو ایک رسید دی جاتی ہے جس پر ہیرے کے متعلق تمام تفصیلات درج ہوتی ہے اور ہیرا سرکاری جوہری کے پاس جمع کروا دیا جاتا ہے۔
جوہری اس ہیرے کی بنیادی قیمت طے کرتا ہے اور پھر نیلامی کا انتظار کیا جاتا ہے۔
ہر سہ ماہی یا ہیروں کی دستیابی کی بنیاد پر سرکار ان ہیروں کی نیلامی کا اہتمام کرتی ہے جہاں کوئی بھی ہیروں کے لیے بولی لگا سکتا ہے اور ہیرے سب سے زیادہ بولی لگانے والے کو فروخت کردیے جاتے ہیں۔
انڈین حکومت ہیروں کی نیلامی سے حاصل ہونے والی کل آمدنی کا 12.5 فیصد اپنے پاس رکھتی ہے اور باقی رقم ہیرے کے مالک کے کھاتے میں جمع کروا دی جاتی ہے۔
غیر قانونی کان کنی
لیکن قانونی طور پر ہیروں کی کان کنی کہانی کا محض ایک رخ ہے۔ پنا میں آپ کو ہزاروں لوگ سرکاری زمین لیز پر لیے بغیر ہیروں کی تلاش کرتے دکھائی دیں گے۔
روزانہ یہ لوگ بنا کسی خوف کے اپنے خیموں اور گھروں سے نکل کر ہیرے تلاش کرتے نظر آتے ہیں۔
زیادہ تر نے ہیروں کی کان کنی کی کوئی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی ہوتے۔ یہ لوگ عموماً پرانی کانوں کے قریب گڑھے کھودتے ہیں اور اس وقت تک کھدائی کرتے ہیں جب تک کہ وہ کنکروں والی مٹی کی تہہ تک نہ پہنچ جائیں۔ اسے مقامی زبان میں ’چھال‘ کہتے ہیں۔
پھر اس گڑھے کو پانی سے بھر دیا جاتا ہے اور گیلی مٹی کو باریک فلٹر کے ذریعے چھانا جاتا ہے۔ پھرباقی مواد کو دھو کر خشک کیا جاتا ہے اور فلٹر میں جمع پتھروں کو جمع کیا جاتا ہے۔ بالآخر فلٹر میں موجود ان گنت کنکریوں میں سے ہیرا ڈھونڈنے کا ایک نہ ختم ہونے والا عمل شروع ہوتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مقامی افراد اور ہیرے کی تلاش کے عمل سے جڑے بہت سے لوگوں نے دعویٰ کیا کہ دریائے پنا کے کنارے یا خالی پڑی زمینوں میں لوگ صبح سے ہی بیلچوں کی مدد سے کھدائی شروع کر دیتے ہیں۔
اسی طرح کھدائی میں مصروف ایک شخص نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے والد کو دہائیوں پہلے ایک چھوٹا ہیرا ملا تھا اور تب سے ہم نے اس کی کہانی سنی ہے۔ انھوں نے نے اپنی پوری زندگی ہیروں کی تلاش میں لگا دی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ان کے والد وفات پا گئے ہیں۔ ’اب میں ان کے نقشِ قدم پر چل کر ہیروں کی تلاش کر رہا ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ جانتے ہیں کہ وہ غیر قانونی طریقے سے ہیروں کی تلاش کر رہے ہیں۔
اس سوال کے جواب میں کہ یہ فرق کیسے کیا جاتا ہے کہ فلٹر میں جمع پتھروں میں سے کون سا عام کنکر ہے اور کون سا ہیرا، ایک کان کن نے ہمیں بتایا کہ ’جب آپ ہیرے کو دیکھتے یا چھوتے ہیں تو جسم میں ایک کرنٹ سا دوڑ جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے وہ پتھر زندہ ہو گیا ہو۔ ہیروں سے محبت کرنے والے اس سے دھوکہ نہیں کھا سکتے۔‘
کئی افراد کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو قانونی طریقے سے ہیرا مل جاتا ہے اور وہ اس کی جانچ کروانے کے لیے کسی سرکاری جیولر کے پاس جاتا ہے تو یہ چیز اس کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ ان کے مطابق ایسا کرنے سے اس شخص کے مجرموں کی نظر میں آنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
رقم ملنے کی صورت میں چوری کا بھی خدشہ ہوتا ہے اور اسی وجہ سے بہت سے لوگ قانونی طریقہ کار اپنانے سے ڈرتے ہیں۔
ہیروں کی غیر قانونی خرید و فروخت میں ملوث ایک شخص نے بتایا کہ ’پنا میں نکالے جانے والے ہیروں میں سے صرف 10 سے 15 فیصد ہی سرکاری ہیرے کے دفتر پہنچتے ہیں جبکہ باقی نجی طور پر فروخت کر دیے جاتے ہیں۔‘
ان کے مطابق فوری اور ٹیکس سے پاک ادائیگی بلیک مارکیٹ کو پرکشش بناتا ہے۔ دوسری جانب، سرکاری جوہری کے پاس ہیرا جمع کروانے کی صورت میں نیلامی تک انتظار کرنا پڑتا ہے
سرکاری لیز کے بغیر ہیرے کی تلاش کرنے والوں کی فہرست میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو دوسری ریاستوں آئے ہیں۔
غیر قانونی کان کنی پر حکومت کیا کہتی ہے؟
جب ہم نے رونج ندی کے کنارے اور پنا میں غیر قانونی سرگرمیوں کے بارے میں کان کنی کے افسر روی پٹیل سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وقتاً فوقتاً سوشل میڈیا کا استعمال کر کے لوگوں میں آگاہی پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور انھیں اپنے ہیرے پنا میں سرکاری دفتر میں جمع کروانے کی ترغیب دیتے ہیں۔‘
روی پٹیل کہتے ہیں کہ ’ہیرا اتنی چھوٹی چیز ہے کہ یہ معلوم کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے کہ اسے کس نے ڈھونڈا یا کسے بیچا گیا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ غیر قانونی کان کنی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔
پنا میں ہیروں کی تلاش سے وابستہ زیادہ تر افراد کا تعلق کم آمدن طبقے سے ہے۔ ان میں سے بہت سے افراد ہیروں کی تلاش کے قانونی طریقہ کار کے بارے میں جانتے تک نہیں ہیں۔
ایک طرف جہاں حکام دعویٰ کرتے ہیں وہ ہیروں کی غیر قانونی کان کنی کے سدِ باب کے لیے کوششیں کر رہے ہیں وہیں یہ بات بھی اٹل حقیقت ہے کہ نیلامی کے لیے پنا پہنچنے والے ہیروں کی تعداد سال بہ سال کم ہوتی جا رہی ہے۔
سال 2016 میں 1,133 ہیرے سرکاری طور پر نیلام کیے گئے تھے۔ سال 2023 میں یہ تعداد گھٹ کر محض صرف 23 رہ گئی۔
غربت اور بے روزگاری
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق پنا مدھیہ پردیش کے پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔
یہ علاقہ غربت، پانی کی کمی اور غذائی قلت جیسے مسائل کا شکار ہے جبکہ بے روزگاری کی شرح بھی کافی زیادہ ہے۔ پنا کے بیشتر افراد ہیروں کی کان کنی، مزدوری اور کھیتی باڑی سے منسلک ہیں۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق پنا کے 23.2 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں جب کہ 15 سے 49 سال کی 59 فیصد خواتین خون کی کمی کا شکار ہیں۔
اگرچہ ہیرے کی کھدائی کا کام زیادہ تر مرد کرتے ہیں لیکن کئی خواتین بھی اس کام سے جڑی ہیں۔ تاہم یہاں کام کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔
ہیرے کی کان کنی کے منفی اثرات
پنا میں مسلسل کان کنی نے ماہرینِ ماحولیات کی تشویش میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔
حکومت پر ہیروں کی کان کنی کو کنٹرول کرنے کے لیے مسلسل دباؤ ہے تاکہ ماحول پر پڑنے والے اس کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکے۔
پنا میں واقع ٹائیگر ریزرو کو بھی ہیروں کی کان کنی کی وجہ سے ماحول پر پڑنے والے منفی اثرات سے خطرہ لاحق ہے۔ اس ریزرو میں فی الحال 50 کے قریب شیر ہیں۔
حکومت پر دباؤ ہے کہ وہ کان کنی کے عمل کو محدود کرے تاکہ اس سے ریزرو کو محفوظ بنایا جا سکے۔
بغیر اجازت کان کنی پر پابندی ہے اور اس عمل میں ملوث پائے جانے والوں پر جرمانہ بھی ہوتا ہے۔
برسوں سے ہیروں کی تلاش میں لگے کئی افراد کے لیے یہ کام محض پیسہ کمانے اور زندگی بدلنے کے موقع سے کہیں بڑھ کر ہے۔
ان کے لیے یہ ان کے روزمرہ کی زندگی کا حصہ بن گیا ہے۔
اگلی صبح پھر بہت سے جمنا پال، امیت شری واستو اور پرکاش شرما ہیرے کی تلاش میں پانے گھروں سے نکلیں گے .