ویب ڈیسک : جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی نے گندم بحران پر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، ہمارا مطالبہ ہے کہ گندم خریدنے والے افراد کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے منصورہ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ کسان نے محنت سے گندم اگائی مگر حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے ان کی محنت رائیگاں جا رہی ہے، پنجاب حکومت نے پہلی بار اعلان کیا ہے کہ وہ گندم نہیں خریدے گی۔ کم اراضی پر کاشتکاری کرنے والے کسان پریشان ہیں۔ جب بھی کاشت کا موسم ہوتا ہے تو یوریا اور ڈی اے پی شارٹ کر دیا جاتا ہے۔ کسانوں نے کاشت کاری کے لئے ضرضے لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ جب فصل بیچ کر قرض واپس کرنے کا وقت آتا ہے تو آج حکومت نے نہ خریدنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ملک میں کئی صنعتیں بند ہوچکی ہیں، تجارت مشکل میں پڑی ہے، ایسے وقت میں زراعت کے شعبے پر شب خون مار دیا گیا ہے۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک فوڈ باسکٹ کو ہمیشہ محفوظ رکھتا ہے اور سبسڈی دیتا ہے۔ جماعت اسلامی نے گندم بحران پر آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جب گندم ملک میں موجود تھی چونتیس لاکھ میٹرک ٹن گندم منگوانے کی ضرورت کیوں پڑی، یہ ایسا وقت تھا کہ ملک میں گیس، بجلی سمیت ہر چیز کی قیمتیں بڑھائی جا رہی تھیں۔ڈالر بچانے کی کوشش ہو رہی تھی تو ایسے وقت میں ایک بلین ڈالر کیوں باہر بھیجا گیا۔ اس انکوائیری کو براہ راست چلانا چاہئے، اس میں ملوث تمام افراد کو سامنے لایا جائے، اس میں ملوث جس بھی شخص کا جرم ثابت کو جائے، اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پنجاب حکومت کو گندم کی خریداری ہر صورت کرنی چاہئے، کسان احتجاج کرتے ہیں تو ان کو گرفتار کیا جاتا ہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی نے اس معاملے پر اپنی مشاورت مکمل کر لی ہے، اس مشاورت میں کسان تنظیم کے نمائندے بھی تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ گندم خریدی جائے جبکہ ان کی بھتیجی نے گندم خریدنے سے انکار کر دیا۔ ہم حکومت کو چار دن کا الٹی میٹم دے رہے ہیں کہ گندم فوری خریدی جائے۔ اگر ہمارا مطالبہ نہ مانا تو وزیراعلیٰ ہاوس کے باہر دھرنا دیا جائے۔ اگر احتجاج کو روکنے کی کوشش کی گئی تو شاید حکومت گرانے کی تحریک ابھی شروع ہو جائے۔ تمام ڈویژنل سطح پر احتجاجی کیمپس لگائے جائے گے۔ لاہور اور پنجاب کے مختلف اضلاع میں بھی کیمپ لگائے جائیں گے۔ پاکستان کو چلنے والے ہوش کے ناخن لیں جو حکومت بعد میں گرنی ہے یہ نہ ہو اس کا آغاز کسانوں کے احتجاج سے ہو جائے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ساٹھ فیصد زمینیں انگریز دور سے لوگوں کے قبضے میں ہیں۔ چالیس فیصد زمین چھوٹے کسانوں کے پاس ہے، امپورٹر نے گندم امپورٹ کرنے میں 85 ارب روپے پاکستانی قوم سے کھائے ہیں۔ امپورٹر نے ایک من کے پیچھے ہزار روپے گندم امپورٹ پر کمائے۔ جماعت اسلامی کے تمام کارکن کسانوں کی تنظیموں سے رابطہ کیا جائے۔ کسانوں کو اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہیے، کسانوں کو فارم سینتالیس والی حکومت کے سامنے جھکنا نہیں چاہئے، دو دن قبل چھوٹے بڑے علاقوں میں چھ سو مقامات پر احتجاج ہوا ہے۔ کسانوں کے احتجاج کے دن بھی ہمارے کارکنان گرفتار ہوئے، اس دن تو ایسا لگ رہا تھا کہ حکومت چور ڈاکو پکڑنے نکلی ہوئی ہے، حکومت کسانوں کے جیسا کریک ڈاون کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف کیوں نہیں کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں خاندانوں کی حکومت ہے، ایک خاندان سندھ کا حکمران جبکہ دوسرا پنجاب کا حاکم ہے، اسی طرح وفاق میں بھی خاندانی حکومت ہے، فوج اور پولیس والوں کی ٹارگٹ کلنگ کسی صورت برداشت نہیں کی جا سکتی ہے، پولیس کے محکمے کو اپنی خواہشات کے لئے استعمال کرنے کے خلاف ہیں۔ جماعت اسلامی ایک منظم تنظیم ہے اور پرامن احتجاج کرتی ہے، اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو احتجاج کر رہا ہے۔
پریس کانفرنس میں جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل امیر العظیم، قیصر شریف سمیت دیگر نے شرکت کی۔