تحریر:عامر رضا خان ،مریم نواز شریف صاحبہ کو پنجاب کی باگ ڈور پکڑے ابھی دو ماہ ہوئے ہیں لیکن ان دو ماہ میں ہی وہ پاکستان بھر میں دیگر تمام وزراء اعلیٰ سے نمایاں نظر آئیں ،اُن کا آنا جانا ، اٹھنا ، بیٹھنا ، اور کام کرنا سب شاہانہ ہے سکرین کو کیا چاہیے خوبصورت چہرہ اور ٹیپ ٹاپ بارہ مصالحے اور یہ سب کچھ ایک مریم نواز میں موجود ہیں، جنہیں خوب انداز سے ٹی وی سکرینوں ، اخباری صفحات اور ٹاک ٹاک کی سپیس پہ نئے نئے فلٹر لگا کر چلایا جارہا ہے اور اب تو انہوں نے پنجاب میں بیورو کریسی میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلی کر دی ہے لیکن پنجاب میں گورننس کا عالم یہ ہے کہ تمام تر حکومتی وعدوں کے باوجود کسانوں سے گندم کی خریداری شروع نہیں کی جاسکی اور آج تو یہ خبر بھی ثبوت کے ساتھ سامنے آگئی ہے کہ سرکاری عملہ کسان کے بجائے مڈل مین (آڑھتی ) کو باردانہ فراہم کیا جارہا ہے یہ بڑا باریک نقطہ ہے کسان گندم کو اُگا کر اس کی کٹائی چھنائی اور بھرائی کا خرچہ کرکے جب گندم فروخت کے لیے نکلا تو اسے پاسکو اور پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے ٹھینگا دکھا دیا گیا، گاڑی ڈیزل کا خرچہ ، کٹائی ،چھنائی والوں کی مزدوری والے تو اپنا اپنا کام کرچکے تھے، سب کو اس فروخت سے اپنا اپنا حصہ وصولنا تھا ظاہر ہے کہ سارا سال جس جس نے بھی کسان کو اپنی خدمات ادھار میں دیں اس کی وصولی کا وقت ہوا چاہتا تھا ۔
ہمارے دیہات میں آج بھی یہ روایت قائم ہے کہ کسان اپنے روز مرہ کی چیزیں بزاز اور پنسار کی ہٹی (دیہاتی کپڑے /جنرل سٹور ) سے ادھار میں اٹھاتا رہتا ہے ، اسی طرح گاؤں کا حجام ہو یا سبزی والایا پھر امام مسجد سب اپنی اپنی آس چھ ماہی آمدن کی آس پر گزارتے ہیں ، پنجاب میں دو بڑی فصلیں ہی کاشتکار کی ہوتی ہیں سب سے بڑی گندم اور دوسری جنوبی علاقوں میں کپاس اور وسطی پنجاب و بالائی پنجاب میں چاول، ادائیگیوں کا سرکل دونوں جگہ ایک سا ہی چلتا ہے ، اس لئے کسان کو اپنی گندم جلد از جلد فروخت کرنا ہوتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ مارکیٹ میں اپنی فصل لاتا ہے اس سے پہلے کے بارش یا موسمی تبدیلی و تغیر اس کی کوالٹی اور وزن میں فرق ڈال دے ، پنجاب اور وفاق ہر سال بذریعہ پاسکو (پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سرسز کاروپوریشن لمیتیڈ ) کے ذریعے اور پنجاب حکومت محکمہ خوراک کے ذریعے یہ خریداری کرتا ہے اب مسئلہ یہ ہے کہ حکومت گندم کی قیمت خود مقرر کرتی ہے اور کسان کو کہا جاتا ہے کہ گندم کی پیکنگ کے لیے اسے محکموں کی جانب سے بوریاں یا باردانہ فراہم کیا جاتا ہے پہلے تو پنجاب حکومت نے ظلم یہ کیا کہ پچھلے سال کی سپورٹ پرائس 3900 روپے کو ہی برقرار رکھا لیکن گندم کی خریداری کا آغاز برقت نہیں کرایا جس سے کسانوں مین بےچینی بڑھی ۔
اس بے چین، بے چارے کسان نے اپنی ادائیگیوں کے بوجھ سے چھٹکارہ پانے کے لیے مڈل مین سے رابطہ کیا جسے عام فہم زبان میں آڑھتی کہتے ہیں ، پرانے سودر خور ہندو بنئیے سے ملتی جلتی یہ مخلوق اپنے سرمائے کا استعمال اپنے سرمائے کو دوگنا اور تین گنا کرنے میں کرتے ہیں ، ان کا کام بھی بہی کھاتوں سے چلتا ہے چھوٹا کسان جب نئی فصل کو کاشت کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسے مجبوراً اس مدل مین سے قرض کی ضرورت پڑتی ہے جس سے وہ ادویات اور کھاد لے سکے ،اس مجبور کسان کو اس شرط پر قرض کی رقم دی جاتی ہے کہ وہ فصل کے آتے ہی ادائیگی کرئے گا اور کھاد ، ادویات اُس ڈیلر سے خریدے گا جو وہ کہے گا یعنی رقم ایک جیب سے نکال کر دوسری جیب میں ڈالی جاتی ہے وہ بھی بازار سے کئی گنا زیادہ ریٹ پر یہ سب خریدنے پر مجبور ہوتا ہے ظاہر ہے کسان کو کاشت کاری کرنی ہے اگلی فصل کے نام پر پھر چھ ماہ کھانا ہے ۔
اب آتے ہیں گڈ گورننس کی جانب جس کا دعویٰ پنجاب حکومت اور اس کے خریدے ہوئے ترجمان گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہے ہیں کہ " مریم نواز گڈ گورننس پر یقین رکھتی ہے کوئی صوبہ اور اُس کا صوبے دار مریم کا مقابلہ نہیں کرسکتا وغیرہ وغیرہ " لیکن کہتے ہیں نا ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور یہی صورتحال پنجاب کے عوام کو بھی درپیش ہے، پہلے تو حکومت نے باردانہ نا دیا تو کسان پر آڑھتی نما بنئیے کا دباؤ بڑھا اُس کی رقم کی ادائیگی کے لیے اُسی کے پاس گندم بیچی تو ریٹ فی من ایک ہزار روپے کم ملا ، آڑھتیوں نے گندم کی بہتی گنگا میں خوب ہاتھ منہ کالے کیے۔ ظاہر ہے جب گنگا میں کسان کے ارمانوں کی ارتھیاں (لاشوں کی جلی ان جلی لاشیں ) بہائی جائیں گی تو منہ ہاتھ کالے ہی ہوں گے، اب ان آڑھتیوں نے پاسکو اور محکمہ خوراک کے ساتھ ملکر باردانہ حاصل کرنا شروع کردیا ہے ، کسانوں کی مجبوری کے انگوٹھے پہلے ہی لگوا لیے گئے تھے اور کئی ایک مقامات پر تو اس کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ، آج ہی روہیلا والی سے خبر ہے کہ وہاں کے سرکاری اہلکاروں نے آڑھتیوں کو سینکڑوں کے حساب سے باردانہ جاری کردیا ہے، صرف ایک رسید ساتھ لف ہے ایسے کئی اور ثبوت وہاں کے رپورٹر رپورٹ کر رہے ہیں اب سمجھیں جو گندم آڑھتی نے اونے پونے داموں کسان سے خریدی تھی وہ ان بوریوں میں بھر کر 3900 روپے من حکومت کو بیچی جائے گی اور یوں کسان اپنی غربت کا رونا روتا رہے گا اور ترجمان گڈ گورننس کا لیکن کمائی کرے گا مڈل مین اور وہ بد دیانت سرکاری اہلکار جو ہر سیزن میں کروڑوں کی کرپشن کرتا ہے ۔ مریم نواز اگر یہ گڈ گورننس ہے تو پھر پڑھ لیتے ہیں’’ انا للہ وانا الہٰ راجعون‘‘
نوٹ:بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ایڈیٹر