ملک اشرف: آئین سب مذاہبِ کے لیے برابر ہے۔ ہم سب برابر ہیں اور سب کو آزادی ہونی چاہیے۔ہماری آئینی اور بین الاقومی ذمہ داری بھی ہے کہ قلیتوں کا تحفظ کریں۔ یہ باتیں سپریم کورٹ کے سینئیر جج جسٹس منصور علی شاہ اور دیگر مقررین نے لاہور میں جسٹس اے آر کارنیلئیس کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہیں۔
سابق چیف جسٹس مسٹر جسٹس اے آر کارنیلئیس کی یاد میں اس سالانہ کانفرنس کااہتمام امپلی منٹیشن منیارٹی رائٹس فورم نے کیا۔
کانفرنس میں سپریم کورٹ کے جسٹس سید منصور علی شاہ خصوصی طور پر شریک ہوئے۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ بھی تقریب میں شریک تھے۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی بھی کانفرنس میں شریک ہوئے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی، سابق جسٹس لاہور ہائیکورٹ جمشید رحمت اللہ، ڈپٹی سیکرٹری منیارٹیز افیئر ڈیپارٹمنٹ میاں عمر حیات ، چیئرمین ون مین کمیشن فار منیارٹیز ڈاکٹر شعیب سڈل بھی کانفرنس میں موجود تھے۔
چرچ آف پاکستان کے بشپ آزاد مارشل ،لاہور بار کونسل کے صدر منیر حسین بھٹی، اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل ستار ساحل، سابق اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل سمیرہ حسین، وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس محمد سعید انور بھی کانفرنس کےنمایاں شرکا میں شامل تھے۔
سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس سید منصور علی شاہ کا خطاب
جسٹس منصور علی شاہ نے اقلیتوں کو ان کے مخصوص انداز میں سلام کیا۔ انہوں نے کہا کہ اقلیتیں ہماری پیاری ہیں , ہم سب ان سے پیار کرتے ہیں۔ آپ صرف تعداد میں اقلیت ہیں باقی ہم سب کےبرابر ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ دنیا میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے پرچم میں اقلیتوں کی نمائندگی یہے۔ میں یہ کہوں گا چاند اور ستارہ بھی ہماری اقلیتیں ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہمارے ملک میں 96 فیصد مسلمان ہیں، باقی مذہبی اقلیتیں ہیں۔ افسوس کی بات ہے کہ دنیا میں مذہبی آزادی میں ہمیں نچلے نمبروں پر رکھا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب برابر ہیں اور سب کو آزادی ہونی چاہیے۔ اسلام اقلیتوں سے محبت کا درس دیتا ہے. اسلام ہمیں درس دیتا ہے کہ مذہب ہر انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ کوئی شہری جو مذہب اختیار کرنا چاہے وہ آَزاد ہے۔ ریاست مدینہ کی مثال سب کے سامنے ہے جس میں سب مل کر رہتے تھے۔ پیارے نبی نے اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کا حکم دیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جڑانوالہ میں گھر جلائے گئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اس جگہ گئے۔ عدلیہ نے ہمیشہ اقلیتوں کا تحفظ کیا۔ ہماری آئینی اور بین الاقومی ذمہ داری بھی ہے کہ قلیتوں کا تحفظ کریں۔
انہوں نے کہا کہ معاشرے میں برداشت ہونا ضروری ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کا نکتہ نظر سن کراسے برداشت کریں اسی صورت ہم آگے جا سکتے ہیں۔
وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ کا خطاب
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہمارا مذہب اقلیتوں کے حقوق کو تحفظ دیتا ہے۔ آئین بھی اقلیتوں کے بنیادی حقوق کا ضامن ہے۔ اقلیتوں کے نمائندوں سے ملاقاتیں کر کے اس بارے میں قانون سازی کر رہے ہیں۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ اقلیتوں کیلئے جو کمیشن بن رہا ہے اسے ہیومن رائٹس کے تحت ہونا چاہیے۔ سب کی خواہش ہے کی اقلیتوں کی اعلی عدلیہ میں نمائندگی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ججز نے بہت اچھا کام کیا۔ میرٹ پر پورا اترنے والے اقلیتی وکلا کو عدلیہ میں شامل کریں گے۔
اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ چھوٹی عمر کی شادی روکنے کے بارے میں بجٹ کے بعد قانون سازی ہو گی۔
فلیٹیز ہوٹل میں جسٹس اے آر کارنیلئیس کانفرنس ہوئی جس میں ملک کے ممتاز قانون دانوں اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکنوں کی بڑی تعداد نےشرکت کی۔
بشپ آزاد مارشل کا خطاب
چیرمین نیشنل چرچز کونسل آف پاکستان بشپ ڈاکٹر آزاد مارشل نے جسٹس اے آر کارنیلئیس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملکی آئین تمام مذہبی اقلیتوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے۔ اقلیتوں کو مکمل تحفظ ملنا چاہیے۔
کوئی بھی مذہب ہو اس کو اس کے حقوق ملنے چائیے۔ انصاف سب کے لیے برابر ہونا چاہیے۔ بانی پاکستان نے اقلیتوں کے حقوق کا خاص خیال رکھا۔ 1973 کے آئین کو قائد اعظم محمد علی جناح کے منشور کے مطابق بنایا گیا۔
بشپ آزاد مارشل نے کہا کہ اقلیتوں کے مسائل حل ہونے چاہئیں پاکستان ہم سب کا ہے۔ مذہب اور ذات پات سے ہٹ کر انسانی حقوق سب سے زیادہ ضروری ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کچھ واقعات ایسے ہوئے جو دل خراش تھے۔ سانحہ جڑانوالہ ایک افسوسناک واقع تھا۔ایسے واقعات نہیں ہونے چاہئیں۔
بشپ آزاد نے کہا کہ ہمیں عدالتوں سے انصاف ملتا ہے۔ اقلیتی نوجوانوں نے پاکستان کی ترقی میں حصہ ڈالا ہے۔ ہماری درخواست ہے کہ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔تمام مذاہبِ کی عبادت گاہوں کا کا تحفظ ضروری ہے۔
بشپ آزاد مارشل کا کہنا تھا کہ ہم سب کو مل کر پاکستان کی ترقی کے لیے چلنا ہو گا۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کا خطاب
سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس تصدق حسین جیلانی نے کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ عدلیہ ہر شہری کے آئینی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہے۔
انہوں میں نے چیف جسٹس کی حیثیت سے پشاور چرچ دھماکہ پر ازخود نوٹس لیا۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کے تحفظ کے لیے سپیشل فورس بننی چاہیے۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی کا خطاب
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نےکانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا سابق چیف جسٹس پاکستان اے ار کارنیلسن نے انسانی حقوق کے لیے بہت کام کیا۔ سابق چیف چیف جسٹس پاکستان تصدیق حسین جیلانی کی اقلیتوں کے تحفظ کے لئے خدمات ہیں۔ پاکستان میں تمام اقلیتوں کو قانون برابر حقوق دیتا ہے۔ آئین میں اقلیتوں کے حقوق واضح ہیں۔ اسلام انصاف کا درس دیتا ہے. اسلام میں انسانیت کے حقوق کو سب سے پہلے ہیں۔
جسٹس باقر نجفی نے کہا کہ پاکستان میں بہت سے کیسز ایسے ہوئے ہیں جو اقلیتوں کے تحفظ کی مثال بن گئے۔ عدلیہ مذہب، ذات، برادری سے ہٹ کر انصاف فراہم کرتی ہے۔ اقلیتوں کے حقوق آئین میں لکھے ہیں۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
پاکستان میں اقلیتوں کے حقوقِ پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا گیا۔پاکستان کی عدلیہ میں اقلیت سےتعلق رکھنے افراد اہم عہدوں پر رہے ہیں۔
فیڈرل شریعت کورٹ کے جسٹس سعید انور کا خطاب
فیڈرل شریعت کورٹ کے جسٹس سعید انور نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا، آئین نے ہر دور میں اقلیتوں کو تحفظ دیا ہے. آئین سب مذاہبِ کے لیے برابر ہے۔ قانون سب شہریوں کو یکساں حقوق دیتا ہے۔ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کو تحفظ دیا جاتا ہے اور دیا جاتا رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی میں اقلیتوں کا کردار شامل ہے۔عدالتوں میں انصاف سب کے لیے سب برابر ہیں۔ تمام اقلیتوں کو حقوقِ دینا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ انسانی حقوق میں کوئی فرقہ مذہب میں فرق نہیں ہوتا ہے۔ قائد اعظم نے پاکستان میں رہنے والوں کو برابر حقوق دیئے. اسلام انسانی حقوق پر زور دیتا ہے۔
دنیا میں پاکستان ایسا ملک ہے جہاں تمام لوگ ایک پرچم تلے متحد ہیں۔ پاکستان میں بسنے والے تمام شہری پاکستان کا سرمایہ ہے۔