تا حیات نا اہلی کے تمام معاملات کی سپریم کورٹ میں سماعت آج ہو گی

2 Jan, 2024 | 04:36 AM

سٹی42: میر بادشاہ قیصرانی کیس کی لارجر بنچ میں سماعت آج شروع ہو گی۔ اب اس کیس میں تاحیات نا اہلی کے دیگر کیس بھی شامل کئے جا رہے ہیں۔ ان دیگر کیسز میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کیس بھی ہے جو 8 فروری کے الیکشن میں وزیر اعظم بننے کی امید کے ساتھ حصہ لینا چاہتے ہیں۔

آج سے شروع ہونے والی سماعت مین ایپکس کورٹ کے سامنے کئی اہم آئینی سوالات مین سے ایک یہ ہے کہ آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نا اہلی تا حیات ہونے کی سپریم کورٹ کی تشریح کو  نظر انداز کرنا قانوناً کیونکر ممکن ہے۔

میر بادشاہ قیصرانی کیس کی گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس نکتہ کو ڈسکس کیا تھا کہ الیکشن ایکٹ میں سیکشن 32 شامل ہونے کے بعد اب تاحیات نا اہلی کا تصور ممکن نہیں۔ تاہم یہ سوال اپنی جگہ باقی ہے کہ الیکشن ایکٹ کی کوئی بھی تشریح سپریم کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی تصریح کے ساتھ کی جا چکی تشریح کو منسوخ کیونکر کر سکتی ہے۔

بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ آج سے شروع ہونے والی لارجر بنچ کی سماعت میں اس نکتہ پر ہی جواب تلاش کیا جائے گا  کہ الیکشن ایکٹ کے بعد  آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی برقرار رہے گی یا ؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 7 رکنی لارجر بینچ آج کیس سنے گا جسے  سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نا اہلی سے متعلق پہلے سے زیر سماعت درخواست کی سماعت کے بعد تشکیل دیا ہے۔ اس بنچ میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

بعض مبصرین کی رائے ہے کہ اگر تاحیات نا اہل قرار دیئے گئے افراد کی نا اہلی 62 ون ایف کی جیورسڈکشن میں آنے کی  بجائے الیکشن ایکٹ کے تحت قرار دی گئی تو بادشاہ قیصرانی کے ساتھ نواز شریف اور جہانگیر تری  بھی الیکشن لڑنے کے اہل ہوجائیں گے۔ فی الوقت ریٹرننگ افسروں نے بادشاہ میر قیصرانی، نواز شریف اور جہانگیر ترین تینوں کے کاغذات نامزدگی منظور کر لئے ہیں تاہم ان کے مخالف امیدوار ان کی تاحیات نا اہلی کے فیصلوں کو لے کے اپیلٹ ٹریبونلز میں جانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ 

واضح رہے کہ آرٹیکل62 ون ایف میں نا اہلی کی مدت نہیں لکھی تھی، اس سبب سے  سپریم کورٹ نے ماضی میں پاناما کیس کی سماعت کے دوران آرٹیکل ون ایف کی  تشریح کر کے اس آرٹیکل کے تحت پارلیمنٹ کی رکنیت کے لئے نا اہل قرار دیئے گئے افراد کی نا اہلی کو  تاحیات نا اہلی سے تعبیر کیا۔ 

اگست میں مدت پوری کرنے والی پی ڈی ایم حکومت کے دوران پارلیمنٹ نے "الیکشن ایکٹ" منظور کر لیا تھا جو اب نافذ العمل ہے۔ اس ایکٹ کی ایک سیکشن کے مطابق نا اہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال مقرر کی تھی۔

عدالت نے تاحیات نا اہلی سے متعلق بار کونسلز سمیت تمام درخواستیں یکجا کر کے سماعت کے لیے مقرر کی ہیں۔ عدالت عظمیٰ کا لارجر بینچ آج دن ساڑھے 11 بجے سماعت کرے گا۔

واضح رہے کہ 26 جون 2023 کو قومی اسمبلی نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ایسی ترامیم کی منظوری دی تھی جن کا بادی النظر میں مقصد میاں نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کی آرٹیکل 62، 63 کے تحت تاحیات نا اہلی کو ختم کرنا تھا۔ اس ترمیم کو بعد ازاں سینیٹ  سے بھی منظوری مل گئی اور یہ نافذ العمل بھی ہو گئی۔ 

اس بل میں الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (جرائم کی وجہ سے نااہلی) میں ترمیم شامل تھی۔ بل کی شق 4 کے زریعہ  ایکٹ کی سیکشن 232 میں  تبدیلیاں تجویز کی گئیں جن کے مطابق نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 62 (پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے اہلیت) اور 63 (پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نااہلی) کی متعلقہ دفعات میں فراہم کیا گیا ہےتاہم  "جہاں اس کے لیے کوئی طریقہ کار، طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی ہے،  وہاں اس ایکٹ (الیکشن ایکٹ 2017 ترمیمی) کی دفعات لاگو ہوں گی۔"

"اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود، اس وقت کے لیے نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے کے تحت،  نااہلی یا آئین کے آرٹیکل 62 کی شق (1) کے پیراگراف (f) کے تحت پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے نا اہلی پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی۔

مزیدخبریں