ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

"فائنل کال" ؛ پی ٹی آئی کی قیادت اور درجنوں کارکنوں پر دہشتگردی کا مقدمہ

Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42:  اسلام آباد میں انسداد دہشت گردی کی عدالت (اے ٹی سی) نے پیر کو  تحریک انصاف  کے کئی اعلیٰ رہنماؤں کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، جن میں جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور کے ساتھ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب، سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجا، بشریٰ بی بی، شیر افضل مروت بھی شامل ہیں۔

پی ٹی آئی کے  96 رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جن کے وارنٹ گرفتاری اے ٹی سی نے اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں درج مقدمے میں  جاری کیے ہیں۔ سابق صدر  عارف علوی، سینیٹر شبلی فراز، شہریار خان آفریدی، مراد سعید، راجہ بشارت، اسد قیصر اور ایمان طاہر صادق بھی پی ٹی آئی کے ان رہنماؤں کی فہرست میں شامل ہیں جن کے وارنٹ گرفتاری پیر کو جاری کیے گئے تھے۔

عمران خان نے 24 نومبر کو ملک گیر مظاہروں کی "فائنل کال" دی،  عمران خان نے  پی ٹی آئی کے انتخابی مینڈیٹ کی بحالی،اپنی اور پی ٹی آئی کے دیگر  گرفتار  رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی اور 26ویں آئینی ترمیم کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا تھا جس پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی بلکہ اسلام آباد میں احتجاج کرنے پر ہی پابندی لگا دی جس کی بعد مین اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی توثیق کر دی تھی۔

24 نومبر کو پی ٹی آئی کے کئی لیڈر جتھوں کے ساتھ خیبر پختونخوا سے سڑک کے راستے اسلام آباد کی طرف روانہ ہوئے جہاں احتجاج یا کسی بھی برح کا اجتماع کرنے پر پابندی عائد تھی۔ ان جتھوں کے پنجاب کی حدود مین داخلہ کے ساتھ ہی تشدد شروع ہو گیا تھا جس مین پولیس اور رینجرز کے کئی اہلکار جتھوں میں شامل افراد کی فائرنگ اور  تشدد سے مارے گئے۔

27 نومبر کی اولین ساعتوں میں، وفاقی دارالحکومت میں آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کر لی گئی تھی اور شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے ک حکم دے دیا گیا تھا تاہم دن بھر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے بشریٰ بی بی اور علی امین گنداپور کے ساتھ مل کر ڈی چوک پہنچنے کے لئے اسلام آباد کی سڑکوں پر رکاوٹوں کے باوجود سفر جاری رکھا اور سہ پہر کو سینکڑوں کارکنوں نے ڈی چوک کے اطراف پہنچ کر سکیورٹی فورسز کو چیلنج کرنا شروع کر دیا تھا جو "شر پسندوں کو دیکھتے ہی گولی مار دینے" کے حکم کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے اور کسی پر گولی یا ڈنڈا چلانے سے آخری حد تک گریز کرتے رہے۔ 

رات کا اندھیرا ہونے سے پہلے سکیورٹی فورسز نے وارننگ دی کہ ڈی چوک اور شاہراہ دستور کے اطراف میں موجود شر پسند واپس چلے جائیں ورنہ ان کے ساتھ سختی کی جائے گی۔ اس وارننگ کے بعد بشریٰ بی بی اور علی امین گنداپور اپنے کارکنوں کو سڑک پر چھوڑ کر خود واپس چلے گئے تھے۔  سیکورٹی فورسز اور پی ٹی آئی کے مظاہرین کے درمیان گھمسان ​​کی لڑائی  رہنماؤں کےعجلت میں پیچھے ہٹنے کے بعد کچھ دیر جاری رہی تھی۔ 

تین روز سے جاری مظاہروں میں کم از کم چھ افراد ہلاک ہوئے، جن میں ایک پولیس اہلکار اور تین رینجرز اہلکار شامل تھے جنہیں اسلام آباد کی مرکزی سڑک سری نگر روڈ پر  ایک مبینہ شر پسند کی تیز رفتار گاڑی نے ٹکر مار دی تھی۔

پی ٹی آئی نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ 26 نومبر کی رات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کے دوران پارٹی کے سینکڑوں کارکن مارے گئے تھے تاہم بعد میں اس نے اپنے دعوے سے مکر گئے اور اب ان کا دعویٰ ہے کہ "احتجاج میں 12 افراد کی جانیں گئیں۔" ان میں سے بیشتر کی تدفین کب کہاں ہوئی یہ کسی کو نہین پتہ تاہم مری کے نواحی علاقہ سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بتایا کہ انہوں نے دو افراد کی آخری رسومات مین شرکت کی جو اس "فائنل کال" کے نتیجہ مین ہونے والے تشدد کے دوران مارے گئے تھے۔