ملک اشرف : لاہور ہائیکورٹ نے مقدمات میں بریت کے باوجود شہریوں کے پولیس کیریکٹر سرٹیفکیٹ میں نام ظاہر کئے جانے کا معاملہ مفاد عامہ کا قرار دیتے ہوئے ریمارکس دیئے جب ایک شہری کسی مقدمہ سے بری ہو جائے تو اس کا مطلب وہ معصوم ہے، پولیس ویریفکیشن کمیٹی کو کس نے اختیار دیا کہ وہ عدالت کی بریت کو نہ مانے، سی سی پی او اس معاملے کے مستقل حل کے لئے دس روز میں جامع رپورٹ پیش کریں۔
جسٹس فاروق حیدر نے شہری نعمان بٹ کی درخواست پر سماعت کی، درخواست گزار کے وکیل فیضان سلیم نے موقف اختیار کیا کہ شہری نعمان کو کاروباری مخالفت میں ڈکیتی کے مقدمہ میں ملوث کیا گیا اور ٹرائل عدالت نے درخواست گزار کو بری کر دیا اسکے باوجود پولیس ویریفیکیشن کمیٹی نے نام سنگین جرم میں شامل ہونا قرار دیا اور کریکٹر سرٹیفکیٹ میں مقدمہ میں ملوث ہونا ظاہر کیا جو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ عدالتی طلبی پر سی سی پی او پی بلال صدیق کمیانہ، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر اور ایس پی سی آر او عقیلہ پیش ہوئے۔ عدالت نے سی سی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اگر کسی مقدمہ میں ملزم بری ہوتا ہوتا ہے تو اس کو پراسکیوشن چیلنج کرسکتا ہے، لیکن اگر پولیس عدالتی فیصلے کو چیلنج نہیں کرتی اور پولیس ویریفیکیشن کمیٹی یہ بھی کہے کہ وہ عدالتی بریت کو نہیں مانتی تو کیا یہ توہین عدالت نہیں؟ مگر یہاں معاملہ یہ ہے کہ پولیس کہتی ہے کیونکہ ہم نے ایک ملزم کا چالان جمع کروایا اس لئے ہم عدالت کے فیصلے کو نہیں مانتے، سی سی او پی صاحب! اس کی نوعیت کو سمجھیں کہ ایسے رویے سے دنیا میں پاکستان کا کیا پیغام جائے گا؟ جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ لوگوں نے بیرون ملک جانا ، سرکاری نوکری کے لئے اپلائی کرنا ہوتا ہے اور مقدمات میں جھوٹا ملوث کیا جانا ہمارے معاشرے کی حقیقت ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت ہر بری ہونے والا شخص باعزت بری ہوتا ہے۔ دوران سماعت سی سی پی او لاہور نے عدالتی بریت کے باوجود ویریفیکیشن رپورٹ میں ملزم کا جرم سنگین لکھنے پر عدالت سے معافی مانگی اور یقین دلایا کہ وہ اس پر کارروائی کریں گے۔ جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ عدالت سی سی پی او بلال صدیق کمیانہ کو ایک قابل افسر سمجھتی ہے کیونکہ آپ نے ہمیشہ قانون کی بالادستی کی بات کی ، لیکن بریت تسلیم نہ کرنے جیسی رپورٹ حیران کن ہے۔ سی سی پی او لاہور نے کہا کہ وہ عدالت میں پیش کی گئی رپورٹ کا دفاع نہیں کریں گے اور عدالتی حکم سے اختلاف کرنے پر وہ ضرور کاروائی کریں گے۔
سی سی پی او لاہور نے تسلیم کی کہ پتنگ بازی اور دیگر معمولی مقدمات کی وجہ سے لوگوں کو مسائل ہیں اور اس کے حل کے لئے کئی میٹنگز بھی کی گئی ہیں۔ مینوئل ریکارڈ ،متعلقہ پولیس کی صوابدید کے سبب غیر ملکی ایمبیسیز سے شرمندگی کا سامنا بھی کرنا پڑا، اب ریکارڈ ڈیجیٹل ہے،مگر اس معاملہ کا کوئی حل نکالتے ہیں۔ ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر درخواست پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ سی آر او ریکارڈ کے مطابق ہر ملزم کا ریکارڈ موجود رہتا ہے اور درخواست گزار پولیس ریکارڈ سے اپنے مقدمہ کا ریکارڈ ختم کروانا چاہتا ہے جس پر جسٹس فاروق حیدر نے ریمارکس دیئے کہ پولیس ریکارڈ اور کیریکٹر سرٹیفکیٹ میں فرق ہوتا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت 13 دسمبر تک ملتوی کردی