ڈپریشن میں پاکستان کا کونسا نمبر؟

2 Dec, 2018 | 09:29 AM

فروا وحید

(فروا وحید) ہر سال 10 اکتوبر کو ذہنی صحت کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد دنیا میں بڑھتی ہوئی ٹینشن اور اعصابی دباﺅ سے نمٹنا ہے۔ اس دن کا آغاز 10 اکتوبر 1992ءکو مغرب میں اس وقت ہوا جب ذہنی دباﺅ سے اموات میں اضافہ ہونے لگا۔ شروع میں یہ دن امریکہ انگلینڈ سکینڈینوا تک محدود تھا مگر پھر ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں اور آج یہ عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔

انسان کی ذہنی صحت کی بربادی میں کچھ چیزیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں ان میں ڈپریشن، انزائٹی شراب اور ہر چیز کو اس کی اہمیت سے زیادہ اور بلاوجہ سوچنا ہے۔ اس عالمی دن پر اگر بات کی جائے ان ممالک کی کہ جہاں سب سے زیادہ لوگ ذہنی دباﺅ کا شکار ہوتے ہیں تو اس میں چین 1، بھارت 2، امریکہ 3، روس 4، برازیل کا 5، انڈونیشیا کا 6، پاکستان کا 7 ،بنگلہ دیش کا 8، نائجیریا کا 9 اور جرمنی کا 10 نمبر ہے۔

ماہرین کے مطابق دنیا میں 300 ملین افراد اس وقت ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں اور اپنی زندگی سے کسی حد تک مایوس بھی۔ ہر سال 800000 لوگ خودکشی کرتے ہیں اور وجہ ہوتی ہے محبت میں ناکامی شادی شدہ زندگی کا تناﺅ۔ لوگوں کی فکر اور زندگی کے اہداف حاصل کرنے میں ناکامی، مغرب میں اس چیز سے باہر نکلنے کے لیے کام جاری ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق خود کشی کرنے والوں کی زیادہ تر عمریں 15 سے29 سال کے درمیان ہوتی ہیں، ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ 15 سے 32 سال کی عمر میں انسان چونکہ مختلف معاشی اور مالی تبدیلی سے گزر رہا ہوتا ہے اس لیے ان میں دلبراشتہ ہوکر خود کشی کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔

والڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک جاری کردہ رپورٹ کے مطابق دنیا میں ڈپریشن کا شکار ہونے والوں میں زیادہ تر کا تعلق پسماندہ طبقے سے ہوتا ہے۔ اس کی ایک وجہ انتہائی غربت اور پھر اوپر سے علاج نہ ہونا اور معاشرے کی بے حسی ہے۔ عورتوں کی بھی ایک بڑی تعداد سٹریس اور ڈپریشن کا شکار ہوتی ہے پر مردوں کی تعداد اب بھی زیادہ ہے۔ پاکستان میں تقریباً دو کروڑ سے زائد افراد ٹینشن اور ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں۔ ہمارے ہاں بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے بھی لوگ پریشان ہیں، چونکہ پاکستان میں 40% آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اس لیے ان لوگوں کے پاس دو وقت کا کھانا تک بھی مشکل ہے۔ اب اس ایسے میں جو شخص دو ٹائم کی روٹی پوری نہیں کر سکتا وہ اپنے بچوں کو تعلیم دینے کا کیسے سوچے گا؟

گھر کا بڑھتا ہوا خرچ، بڑھتی ہوئی مہنگائی کے طوفان سے ہارنے کا ڈر انسان کو زندگی کے خاتمے سے زیادہ مشکل لگتا ہے۔ ماہرین کے مطابق عورتوں میں بھی ٹینشن کی وجہ سے دل کے امراض سے موت کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک جائزے کے مطابق کسی نہ کسی دباﺅ اور ٹینشن ڈپریشن میں آکر پاکستان میں سب سے زیادہ لوگ جنوبی پنجاب، راولپنڈی، لاڑکانہ، کراچی اور پشاور میں زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ مردوں کی خودکشی کرنے کی تعداد سوائے خیبرپختنخوا کے دیگر صوبوں میں زیادہ ہے۔ کے پی میں خواتین کی ذہنی دباﺅ سے اموات اور خودکشی زیادہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں خود کشی کرنے والوں کی عمریں زیادہ تر 20 سے 40 کے درمیان ہوتی ہیں۔ ایک اور خطرے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ اعداد و شمار2030ءتک حیران کن طور پر اس سے 2 گنا زیادہ ہوجائیں گے۔ کیونکہ ہمارے یہاں پر کنسلٹ کرنے اور کونسلنگ کے سنٹرز تک قائم نہیں ہیں جیسا کہ مغرب میں ہیں۔ مغرب میں تو اسکولوں میں بھی اس طرح کی سنٹرز قائم ہوتے ہیں مگر ہمارے تعلیمی اداروں بس بچے پہ بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس طرح کے اقدام کی اشد ضرورت ہے۔ اور اس سوچ کو ختم کرنے کی بھی کہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جانا کوئی گناہ نہیں ہے۔ یہ بھی ایک پہلو ہے کہ کچھ لوگ تو ڈاکٹر کو افورڈ ہی نہں کر سکتے۔

اس بات کو سمجھنا بھی لازم ہے کہ اگر ڈپریشن کی شروعات گھر سے اور ارد گرد کے ماحول سے ہوئی ہے تو اس سے نکلنے کا حل بھی آس پاس سے ہی ملے گا۔ ہمارے یہاں بچوں پر پڑھائی کا بوجھ ڈالا جاتا ہے اور اتنا ڈالا جاتا ہے کہ ان کے ذہن میں یہ بات نقش ہوجاتی ہے کہ اگر وہ ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بنیں گے تو ان زندگی بےکار اور دنیا میں آنے کا مقصد نامکمل رہے گا۔ خدارا بچوں کی ذہانت مختلف ہوتی ہے۔ ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا۔ اس بات کو والدین اور استاد کو سمجھنا ہوگا تاکہ بچے باغی نہ ہوں اور ڈپریشن میں نہ جائیں۔

عورتوں میں بھی زندگی کی اہمیت سے متعلق آگاہی انتہائی ضروری ہے۔ چونکہ ہمارے یہاں عورت کو عورت دور انسان تک نہیں سمجھا جاتا اس لیے وہ یہ انتہائی قدم اٹھاتی ہیں۔ خدایا والدین بیٹی کو بوجھ سمجھ کر اپنے سر سے اتاریں نا بلکہ اسے انسانی بنیادوں پہ خودمختار بنائیں! مرد کو درد ہوتا ہے اور مرد بھی روتا ہے اس بات کو ذہن نشین کرنا بھی اب بہت ضروری ہے۔ اور ہماری تربیت میں یہ چیز شامل ہونی چاہیے کہ اپنی فکر کسی قریبی کے ساتھ شئیر کرنا کوئی نامردی نہیں ہے۔

آخر میں حکومت کو چاہیے کہ وہ بھی اس بات کو اہمیت دے اور مغرب کی پالسی کی طرح یہاں بھی مینٹل ہیلتھ سنٹرز قائم کرے تاکہ انسان کی عزت نفس کا خیال بھی رکھا جائے اور اس کا علاج بھی ہو۔ اس بات کو سمجھنا بھی ضروری ہے مہنگائی زیادہ اور آمدن کم ہوتی گئی تو حکومت بھی آنے والے وقت میں کئی اموت کی ذمہ دار ہوگی۔ ہمیں اس بات کا اعادہ کرنا ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کو اور خود کو اس مرض سے باہر نکالیں گے اور اس زندگی کو اور بھی خوبصورت بنائیں گے کیونکہ مایوسی گناہ ہے۔

مزیدخبریں