ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں کرنے کا کیس؛ سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کو لال جھنڈی دکھا دی

Supreme Court Civilian's Trial in Military Court case, Federal Government's plea rejected, Full Court, City42
کیپشن: File Photo
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

سٹی42: سپریم کورٹ نے سویلین کا ٹرائل فوجی عدالت میں کرنے کے خلاف درخواستوں کی سماعت فل کورٹ میں کرنے کی وفاقی حکومت کی درخواست ایک بار پھر مسترد کر دی۔ 

کل محفوظ کیا گیا فیصلہ آج سنا دیا گیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ  ستمبر تک فل کورٹ تشکیل دینا ممکن نہیں، موسم گرما کی تعطیلات چل رہی ہیں ججز دستیاب نہیں ہیں۔

کیس کی سماعت چھ رکنی لارجر بنچ جاری رکھے گا۔

  سپریم کورٹ میں بدھ کے روز  فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کیخلاف درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں چھ رکنی لارجر بنچ سماعت کر رہا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس عائشہ ملک بھی بنچ کا حصہ ہیں۔

سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے  اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ   آپ کچھ کہنا چاہتے ہیں۔

اٹارنی جنرل روسٹرم پر آگئے

اٹارنی جنرل: گزشتہ روز فیصل صدیقی کی فل کورٹ سے متعلق درخواست سنی گئی

 اٹارنی جنرل  نے بتایا کہ مئی 9 کے واقعات میں کسی کا جرم عمر قید یا سزائے موت کی نوعیت کا نہیں ہے، گزشتہ روز لطیف کھوسہ نے کہا کہ ایک شخص کو جوڈیشل مجسٹریٹ  نے اپنے سامنے پیش ہونے سے منع کیا، 

کھوسہ صاحب نے کہا کہ گرفتار ملزمان کے ساتھ تضحیک آمیز رویہ رکھا گیا۔ گرفتار 102 افراد میں سے کسی کے مجسٹریٹ کے سامنے پیش ہونے پر ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا،

ہر شخص کی عزت نفس اور وقار کا خیال رکھا جا رہا ہے۔ یقین دہانی کراتا ہوں کہ گرفتار 102 افراد میں سے کسی کے ساتھ کوئی غلط برتاو نہیں کیا گیا۔ زیر حراست افراد کو ان کے اہلخانہ سے ملنے اور وکیل کرنے کی اجازت سمیت فئیر ٹرائل کا حق دیا جا رہا ہے، زیر حراست تمام افراد کو سہولیات دینے کی یقین دہانی کرا دی ہے،  

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سول سوسائٹی کے وکیل  فیصل صدیقی سے کہا  فیصل صدیقی صاحب آپ ایک قابل وکیل ہیں، آپ کی عزت کرتے ہیں اس لیے فل کورٹ کی درخواست سنی، چیف جسٹس پاکستان 

عدالت اس طرح سے کیس کے درمیان درخواستیں نہیں سنتی۔چیف جسٹس  نے کہا  تمام ججز کی نجی مصروفیات بھی ہیں جو اس کیس کی وجہ سے معطل ہیں، دو مواقعوں پر پہلے دیگر بنچز معطل کر کے فل کورٹ بنائی، 

،چیف جسٹس عمر عطابندیال نے ہدایت کی کہ   جہاں پر دلائل رکے تھے وہاں سے ہی شروع کردیں۔ ہم اپنا کام جاری رکھیں گے کوئی پسند کرے یا نہ کرے۔ ملک میں کون سا قانون چلے گا یہ فیصلہ عوام کریں گے۔

 ہم نے کام ٹھیک کیا یا نہیں یہ تاریخ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمیں تنقید کی کوئی پرواہ نہیں۔ ہم صرف اللہ کو جوابدہ ہیں اس لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔

چیف  جسٹس عمر عطا بندیال نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کر کے ہدایت کی، اٹارنی جنرل صاحب اپنے دلائل جاری رکھیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا،  اٹارنی جنرل  ملٹری ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پڑھ کر سنا رہے ہیں۔ جب فوجی عدالتیں فعال ہوتی ہیں تو عمومی کرمنل کورٹ غیر فعال ہو جاتی ہیں۔

اٹارنی جنرل  منصور عثمان اعوان نے کہا  فوجی عدالتوں پر آرٹیکل 175 اے کا اطلاق نہیں ہوتا۔

 جسٹس منیب اختر   نے کہا ملٹری کورٹس میں فوجیوں کا ٹرائل ہوتا ہے جن کے بنیادی انسانی حقوق ہیں ہی نہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا  سویلینز کے بنیادی انسانی حقوق ہیں تو ان کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کیسے ہو گا؟

 اٹارنی جنرل منصور عثمان نے جواب دیا  آرٹیکل 175 کہتا ہے کہ ایگزیکٹو اور عدلیہ الگ ہیں، آرٹیکل 175 اے میں عدالتوں کی تعریف بیان کی گئی ہے اس میں کورٹ مارشل شامل نہیں۔

 جسٹس یحیی آفریدی  نے کہا  آرٹیکل 175 تو کہتا ہے کہ عدالت قانون کے مطابق ہونی چاہیے۔

 جسٹس یحیی آفریدی  نے کہا قانون سے ماوراء بننے والی عدالت کا دفاع کیسے کریں گے؟

 اٹارنی جنرل نے بتایا، کورٹ مارشل آرٹیکل 175 اے نہیں بلکہ خصوصی دائرہ اختیار کی حامل عدالت ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا، سویلینز کا ٹرائل کرنے والی عدالتوں کی کیا تعریف ہوگی؟  آپ کیا سمجھتے ہیں کہ یہ مارشل کورٹ ہیں یا ملٹری کورٹس ہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا، یہ ملٹری کورٹ مارشل ہیں جہاں سویلینز کے ٹرائل ہونے ہیں۔

 چیف جسٹس  نے کہا کہ  سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے مطابق قانون کے مطابق قائم کورٹ کو عدالت تصور نہیں کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے محرم علی کیس میں کہا کہ سپریم یا ہائیکورٹ کی سپروائزری کے بغیر عدالت نہیں قائم ہو سکتی۔
 جسٹس عائشہ ملک  نے کہا، آئین کے تحت تو بنیادی انسانی حقوق، انصاف کا حق سمیت آزاد عدلیہ کی سہولت سویلینز کو حاصل ہے۔ ہر سویلین کے پاس کسی بھی عدالت میں جاتے وقت آزادی کا حق حاصل ہوتا ہے۔ ایسی عدالت جو آرٹیکل 175 اے کے تحت قائم نہیں لیکن عدالت ہی ہے وہاں سویلینز کو آزادی کیسے ہوگی؟ 

 اٹارنی جنرل نے جواب دیا، آرمی ایکٹ کی بیشتر شقیں وردی والوں پر لاگو ہوتی ہیں۔

جسٹس منیب اختر کے مسکراتے ہوئے ریمارکس: آپکا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ ان شقوں کا کیس ہمارے سامنے نہیں ہے۔

 اٹارنی جنرل نے کہا کہ پچھلے دو ہفتوں میں بیشتر قوانین بنائے گئے۔
  اٹارنی جنرل نے ہلکے پھلکے انداز سے کہا، جسٹس مظاہر نقوی کے چہرے پر میری بات سن پر مسکراہٹ آگئی ہے۔

 اٹارنی جنرل منصور  عثمان اعوان کا کہنا تھا کہ کابینہ کمیٹی برائے قانون سازی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکا تھا، سویلینز کو فوجی عدالتوں کے فیصلے کیخلاف اپیل کا حق دینے کا معاملہ اٹھایا ہے۔

 جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا ، کیا آپ کا عدالت میں یہ بیان ریکارڈ کر لیا جائے؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا، اپیل کا حق دینے سے متعلق قانون سازی پر مشاورت ایجوٹننٹ جنرل سے ہونا ضروری ہے۔ سویلینز کو اپیل کا حق دینے کے معاملے پر 4 معاملت کو بغور دیکھنا ہوگا۔ دیکھنا ہوگا کہ سازش میں شامل غیر ملکی افراد اس حق کے اہل ہوں گے یا نہیں۔یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والے سویلینز پر آرمی ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے یا نہیں، گزشتہ سماعت پر جسٹس منیب اختر نے کہا تھا کہ حکومت جانے والی ہے تو اٹارنی جنرل کیسے یقین دہانی کرا سکتا ہے۔اس وجہ سے براہ راست جی ایچ کیو سے ہدایات لی ہیں۔  ممکن ہے کہ ایک ہفتے بعد میں اور حکومت یہاں نہ ہوں اس لیے ڈائریکٹ ہدایات لی ہیں۔

 چیف جسٹسعمر عطا بندیال نے کہا،  اگر مثبت جوابات آرہے ہیں تو آپ دلائل جاری رکھیں۔ جن عدالتی نظائر کا ذکر کیا ان کو دوبارہ دیکھوں گا کیونکہ کچھ چیزوں پر وضاحت ضروری ہے۔

کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی ، چیف جسٹس پاکستان نے  کہا، کیس کی سماعت کے وقت کا اعلان بعد میں کریں گے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا،  کیا سویلین کیلئے ملٹری کورٹس ایک متوازی جوڈیشل سسٹم نہیں ہوگا، 

 اٹارنی جنرل  نے جواب دیا،کل تک ہدایات کے بعد مکمل روڈ میپ عدالت کے سامنے پیش کروں گا۔

 چیف جسٹس نے کہا، ممکن ہے اگر آپ کی طرف سے کوئی مثبت جواب ملے تو اس سے درخواست گزاروں کے تحفظات دور ہو جائیں گے۔