ویب ڈیسک: بلدیاتی انتخابات میں کامیابی سے ترکیہ کی سیاست میں ابھرنے والےرجب طیب اردوان کی جماعت جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کو آخر کار 22 سال اقتدار میں رہنے کے بعد بلدیاتی الیکشن میں لرزہ خیز شکست ہو گئی۔
ترکیہ کے بلدیاتی انتخابات میں صدر رجب طیب اردوان اور ان کی جماعت کو ہونے والی شکست کو صدر اردوان کے لئے بڑا دھچکا تصور کیا جا رہا ہے۔
ترکیہ کی سیاسی جماعت ریپبلکن پیپلزپارٹی سی ایچ پی نے اپنی سیاست کے 70سال مسلسل اپوزیشن کرنے کے بعد آخر کار ایک تاریخی کامیابی حاصل کر لی، دارالحکومت انقرہ اور استنبول سمیت ملک کے پندرہ اہم شہروں میں میئر کی نشستوں پر ریپبلکن پیپلزپارٹی سی ایچ پی کے امیدوار جیت گئے۔
استنبول میں اپوزیشن پیپلز پارٹی کے میئر امام اوغلو کو 10 پوائنٹس کی برتری حاصل ہے ، انقرہ میں اپوزیشن پیپلز پارٹی کے میئر منصوریاواش کی جیت پرہزاروں افراد نے جشن منایا۔
ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے بلدیاتی انتخابات میں شکست تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ترک عوام نے انتخابات میں ووٹ کے ذریعے سیاستدانوں کو اپنا پیغام پہنچا دیا ہے، نتائج کا پارٹی میں جائزہ لیں گے اور اپنا احتساب کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ 31 مارچ ہمارے لیے اختتام نہیں ، ٹرننگ پوائنٹ ہے، مئی 2023 کے الیکشن میں جیت کے 9 ماہ بعد ہم مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کر سکے لیکن ہم اپنی کارکردگی کا باریک بینی سے جائزہ لیں گے اور مستقبل کا لائحہ عمل طے کریں گے۔
اقتدار اردوان کے ہاتھ سے نکل گیا؟
ترکی میں اتوار کو بڑے شہروں کے میئرز، ضلعی میئرز اور دیگر بلدیاتی عہدیداروں کے لیے ملک گیر انتخابات میں آگے آنے والے اپوزیشن پیپلز پارٹی کے نمائندے پانچ سال تک خدمات انجام دیں گے۔ اردوان کی پارٹی 2002 میں انتخابات میں حصہ لینے کے بعد پہلی بار مقبول ووٹ سے محروم ہوئی ہے اور اس نے ان بیشتر علاقوں کو کھو دیا جو پہلے اے کے پارٹی کے گڑھ سمجھے جاتے تھے۔ صرف ایک شکست ہی نہیں ہوئی بلکہ آئندہ عام انتخابات تک صدر اردوان کو قدم قدم پر بلدیاتی نمائندوں کی طاقت ور اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا۔ عملاً اس اتوار کو اردوان کی حکومت اور اقتدار تقسیم ہو گیا ہے۔
22 سال میں سب سے بڑی شکست
استنبول کی اوزیگین یونیورسٹی میں سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر مرات سومر نے اس صورتحال پر کہا کہ یہ سب سے بڑی شکست ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ نہ صرف تعداد میں شکست ہے بلکہ اس لیے بھی کہ "اردوگان نے تمام ریاستی طاقت کا استعمال کیا تھا" لیکن اپنی پارٹی کو انتخابات جیتتا نہیں دیکھ سکے۔
نو ماہ میں کایا کلپ
تقریباً نو ماہ پہلے ہونے والے صدارتی انتخاب میں رجب طیب اردوان کو کامیاب ہونے کے لئے دوسرے مرحلہ میں بھی الیکشن لڑنا پڑا تھا۔ وہ انتخابات میں دوبارہ صدر منتخب تو ہو گئے، اپوزیشن لیڈر کمال کلیچ دار اوغلو کوشکست ہو گئی لیکن اردوان نو ماہ میں کچھ ڈیلیور نہیں کر سکے اور نو ماہ پہلے اپنی طاقت کا اندازہ کرنے والی اپوزیشن مسلسل بڑھتی اور پھیلتی گئی۔ اپنی صدارتی فتح کے بعد، اردگان کی نظریں 2019 میں اپوزیشن کے ہاتھوں ہارے ہوئے شہروں کو دوبارہ حاصل کرنے پر تھیں لیکن ہوا یہ کہ وہ اپنی پارٹی کے سٹرونگ ہولڈز میں بھی ہار گئے۔
سی ایچ پی ( ریپبلکن پیپلز پارٹی) کی تاریخی کامیابی
ترکی کی اعلی انتخابی کونسل نے کہا کہ ابتدائی سرکاری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اختلاف کی ریپبلکن پیپلز پارٹی (CHP) نے 81 میں سے 35 بلدیات جیت لی ہیں جن میں ملک کے 30 شہری علاقوں میں سے 14 شامل ہیں۔ یہ پارٹی کی گزشتہ ستر سال مین سب سے بڑی کامیابی ہے۔
سرکاری نشریاتی ادارے TRT کے مطابق، 99.8 فیصد ووٹوں کی گنتی کے ساتھ، غیر سرکاری نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ اردگان کے اہم سیاسی حریف CHP کے امام اوغلو 51.1 فیصد ووٹوں کے ساتھ دوبارہ استنبول کے میئر کے طور پر منتخب ہوگئے۔ ملک بھر میں، CHP نے سب سے زیادہ ووٹ حاصل کیے،جو 37.7% ک ے لگ بھگ ہیں۔
دارالحکومت انقرہ میں CHP کے امیدوار اور موجودہ میئر منصور یاواس نے 60.4 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ ازمیر میں CHP کے Cemil Tugay نے 48.9 فیصد ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی۔
"ایک آدمی کی حکمرانی کا دور آج ختم ہو گیا ہے،" 53 سالہ تاجر سے سیاست دان بننے والے 53 سالہ امام اوغلو نے اتوار کی رات استنبول میں خوشی منانے والے ہجوم کو بتایا۔
"جب ہم اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں، ہم دنیا کو ایک زبردست پیغام بھیجتے ہیں: جمہوریت کا زوال اب ختم ہو رہا ہے،" استنبول کے میئر نے پیر کو X پر لکھا۔ "استنبول امید کی کرن کے طور پر کھڑا ہے، یہ بڑھتی ہوئی آمریت کے مقابل جمہوری اقدار کی ریزیلئینس کا ثبوت ہے۔"