سٹی42: سپریم کورٹ آف پاکستان نے پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر ازخود نوٹس لے لیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے اپنے نام خط میں بعض ریاستی اہلکاروں کے بعض ججوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش اور مداخلت کرنے کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سوؤ موٹو نوٹس لینے کے بعد اس کیس کی سماعت کے لئے سات رکنی لارجر بنچ بھی تشکیل دے دیا۔
چھ ججوں کے خط کے الزامات کی تحقیقات کے از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے لارجر بنچ کی سربراہی چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کریں گے۔ بینچ کے ارکان میں سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس مسرت ہلالی اور جسٹس نعیم اختر افغان شامل ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے ججوں کے خط پر از خود نوٹس لینے کی اطلاع وزیر اعظم کے مقرر کردی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ جسٹس تصدق حسین جیلانی کے تحقیقاتی کمیشن کا حصہ بننے سے اچانک انکار کے کچھ دیر بعد سامنے آئی۔
چھ ججوں کے خط پر تحقیقاتی کمیشن سپریم کورٹ کےتمام ججوں کے اتفاق رائےسے بنا تھا
وزیراعظم شہباز شریف نے سپریم کورٹ کے فل کورٹ اجلاس میں طے پانے والی مشاورت کے بعد قاضی فائز عیسی اور جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ ملاقات میں ان کے کہنے پر اس معاملہ کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو بااختیار تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بنا دیا تھا۔ اس تحقیقاتی کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس بھی جسٹس تصدق حسین نے دیکھے تھے اور اس کے بعد انہوں نے تحقیقاتی کمیشن کی ذمہ داری قبول کی تھی تاہم بعد ازاں جسٹس تصدق جیلانی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر اس کمیشن کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا جس کے کچھ دیر بعد آج سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اچانک اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کے خط پر سوؤ موٹو نوٹس لے لیا اور اس کی سماعت کے لئے سات رکنی بنچ بنا دیا۔
اس سوؤ موٹو کیس کی سماعت کل 3 اپریل کو ہوگی۔
جسٹس تصدق حسین جیلانی کا وزیر اعظم کو خط
پیر کو جسٹس ریٹائرڈ جیلانی نے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھا اور چھ ججوں کے خط میں درج الزامات کی تحقیقات کے لئے کمیشن میں بیٹھنے سے معذرت کرتے ہوئے اپنے پیچھے ہٹنے کی وجہ یہ بتائی کہ چونکہ اسلام آباد کے ججوں نے خط سپریم جوڈیشل کونسل اور اس کے چیئرمین، چیف جسٹس کو لکھا ہے، "میرے لیے اس کی انکوائری کرنا جوڈیشل پرپرٹی کی وائلیشن کے مترادف ہو گا۔ جسٹس تصدق جیلانی نے یہ موقف بیان کیا کہ ان کے نزدیک یہ معاملہ اگر کسی آئینی ادارے کے دائرہ اختیار میں آسکتا ہے تو وہ سپریم جوڈیشل کونسل یا سپریم کورٹ آف پاکستان خود ہے۔"
"میرا یہ بھی خیال ہے کہ انکوائری کے لیے ٹرمز آف ریفرنس مورخہ 25 مارچ 2024 کے (چھ ججوں کے) خط کے موضوع سے قطعی طور پر مطابقت نہیں رکھتی ہیں، جس میں ججوں نے دوسری باتوں کے ساتھ کہا تھا کہ: ہم سپریم جوڈیشل کونسل سے رہنمائی حاصل کرنے کے لیے لکھ رہے ہیں۔ان ججوں کا کہنا ہے کہ ایگزیکٹو ، بشمول انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کارکنوں کی جانب سے کسی جج پر اثر انداز ہونے کی کسی کوشش کی رپورٹ کرنا ججوں کا فرض ہے۔"
جسٹس جیلانی نے اپنے خط میں مزید نشاندہی کی کہ چھ ججوں نے اپنے خط میں (مداخلت روکنے کے لئے) "ادارہ کی سطح پر مشاورت" کی درخواست کی ہے۔
انہوں نے نوٹ کیا کہ اگرچہ خط کے مندرجات آئین کے آرٹیکل 209 کے پیرامیٹرز میں سختی سے نہیں آسکتے ہیں، چیف جسٹس آف پاکستان، ایک سرپرست کی حیثیت سے، ادارہ جاتی سطح پر خط میں اٹھائے گئے مسائل کو حل اور حل کرسکتے ہیں۔
وفاقی حکومت کے فیصلہ کرنے سے پہلے ہی چیف جسٹس نے اپنا راستہ لے لیا
وفاقی حکومت کے لئے جسٹس تصدق حسین جیلانی کا آج دوپہر اچانک تحقیقاتی کمیشن کی قیادت کرنے سے انکار کا خط حیرت کا باعث بنا۔ اس کی وجہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بھی بتائی ہے کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں تحقیقاتی کمیشن کے قیام کے لئے جسٹس تصدق جیلانی کا نام تجویز کرتے وقت ان سے بات کر کے ان کی باقاعدہ رضا مندی لی گئی تھی اور جسٹس جیلانی نے یہ رضامندی دینے سے پہلے کمیشن کے ٹرمز آف ریفرنس دیکھے تھے اور انہوں نے ٹرمز آف ریفرنس کے ساتھ اتفاق کرنے کے بعد سوچ سمجھ کر ہی تحقیقاتی کمیشن کی قیادت کرنے کے لئے رضا مندی دی تھی۔ وفاقی حکومت نے جسٹس تصدق جیلانی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد ہی کابینہ میں منظوری لینے کے ساتھ ہی اس اہم معاملہ کو پبلک کے سامنے پیش کر دیا تھا۔
وزیر اعظم ہاؤس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ کیونکہ جسٹس تصدق جیلانی کے کمیشن کی منظوری وفاقی کابینہ نے اپنے اجلاس مین دی تھی اس لئے جسٹس جیلانی کے کمیشن میں شامل ہونے سے انکار کے بعد وزیر اعظم تنہا اس معاملہ پر کوئی فیصلہ لینے کی پوزیشن میں نہیں تھے، اسے لا محالہ وفاقی کابینہ کے ہی سامنے دوبارہ رکھا جانا تھا جس کے لئے وزیر اعظم ابھی مشاورت کا آغاز ہی کر رہے تھے کہ اس دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے سینئیر ساتھیوں سے مشورہ کرنے کے بعد چھ ججوں کے خط پر از خود نوٹس لے لیا اور اس کی سماعت کے لئے نہ صرف سات رکنی بنچ بنا دیا بلکہ سماعت کے لئے کل 3 اپریل کی تاریخ بھی مقرر کر دی۔
وفاقی حکومت آج اس معاملہ پر غور کرے گی
آج پاکستان مین سینیٹ کا الیکشن بھی ہو رہا ہے اور وفاقی حکومت کی معمول کی پہلے طے ہو چکی مصروفیات بھی ہیں، اس کے باوجود وفاقی حکومت کو جسٹس تصدق جیلانی کے تحقیقاتی کمیشن میں بیٹھنے کے فیصلہ سے پیچھے ہٹ جانے اور سپریم کورٹ کے از خود نوٹس لے کر کل سماعت شروع کرنے کےاعلان سے پیدا شدہ صورتحال پر آج ہی غور کرنا پڑے گا۔ وفاقی حکومت کے ذرائع کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم اس معاملہ پر آج اپنے لیگل مشیروں سے مشاورت کریں گے۔ حکومت IHC ججوں کے خط کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کے مستقل کے بارے میں آج اپنی رائے بنا لے گی تاہم اسے رسماً کابینہ کے اجلاس میں بھی لے جایا جائے گا۔
وفاقی حکومت کا چھ ججوں کے خط کے مواد پر نکتہ نظر
وزیر اعظم شہباز شریف اس خط میں لگائے گئے الزامات کو صحیح نہیں سمجھتے اور وفاقی حکومت کے تقریباً سبھی قانونی دماغ اس خط کے تناظر کے متعلق تحفظات رکھتے ہیں۔ وفاقی حکومت کے اعلان کردہ تحقیقاتی کمیشن کے سامنے بھی بنیادی ٹاسک یہی تھا کہ وہ ان الزامات کی صداقت کی تحقیقات پہلے کرے گا۔ پبلک کے سامنے رکھ دیئے گئے ٹرمز آف ریفرنس کے مطابق، اس کے ساتھ وہ کمیشن اس خط کے معاملہ سے جڑے کسی بھی معاملہ کی تحقیقات کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔ اب اس خط پر چیف جسٹس کے سوو موٹو نوٹس کی سماعت کے نتیجہ میں وفاقی حکومت کو اس خط پر برملا اپنا موقف نہ صرف عدالت میں پیش کرنا پڑے گا بلکہ اس خط کے مندرجات کو چیلنج کرنے کا کام بھی انجام دینا پڑے گا کیونکہ یہ الزام ایگزیکٹو پر ہے جس کے سربراہ وزیراعظم خود ہیں۔