سٹی42: پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ اگر آئین کہے کہ آئینی عدالت ہوگی تو آپ مانیں گے، عدالت کا کام آئین اور قانون پر عملدرآمد کرانا ہے ، ہم نے 30 سال کی جدوجہد کےبعد یہ فیصلہ لیا کہ آئینی عدالت بنے، ملک میں کسی کو مقدس گائے نہیں بننا چاہیے۔
کوئٹہ میں بلوچستان ہائیکورٹ بارسے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو نے کہا کہ 1973کے آئین کو مثیاق جمہوریت کے ذریعے بحال کیا، آمر کےکالے قانون کو کسی جج میں ہمت نہیں تھی کہ وہ غیرآئینی کہے مگر سیاسی لوگ اس وقت ظلم بھگت رہے تھے، میرے والد نےکسی سزا کے بغیر قید بھگتی، اس وقت بھی یہی عدالت کا نظام تھا،کہاں مکمل انصاف تھا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ 1973کے آئین کو مثیاق جمہوریت کے ذریعے بحال کیا، آمر کےکالے قانون کو کسی جج میں ہمت نہیں تھی کہ وہ غیرآئینی کہے مگر سیاسی لوگ اس وقت ظلم بھگت رہے تھے، میرے والد نےکسی سزا کے بغیر قید بھگتی، اس وقت بھی یہی عدالت کا نظام تھا،کہاں مکمل انصاف تھا۔
انہوں نے ماضی میں بعض ججوں کی حکومتوں میں سنگین نوعیت کی مداخلتوں کے حوالے سے کہا کہ آپ کسی وزیراعظم کو نکالیں اور ہم چوں تک نہ کرسکیں، کہا گیا ریاست ہوگی ماں کی جیسی مگر پھر ریاست باپ کی طرح ہوگئی اور اس میں زیادہ ہاتھ افتخار چوہدری کا تھا جن کے وقت میں فل بینچ رات 12 بجے بیٹھ جاتا تھا۔
چیئرمین بلاول نے کہا کہ آئینی ترمیم سے متعلق میں موجودہ چیف جسٹس کے لیے جدوجہد نہیں کررہا، میرا نہیں آپ کا ایجنڈا کسی خاص شخصیت کے لیے ہوسکتا ہے، پہلی بار جسٹس فائزعیسیٰ اور جسٹس منصور کے زمانے میں امید نظر آرہی ہے، مجھے کوئی مسئلہ نہیں ان دو ججوں میں کوئی بھی آکر آئینی عدالت میں بیٹھے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نئے میثاق جمہوریت میں پہلا مطالبہ ہے کہ وفاقی آئینی عدالت بننا چاہیے، کیا آپ یقین دلائیں گے کہ پوری 18 ویں ترمیم اڑانے کی دھمکی نہیں دی جائے گی، اتنے سارے کیسز ہیں جو سنے ہی نہیں جاتے اور ہر چند ماہ بعد ایک سیاسی کیس اٹھ جاتا ہے۔
چیئرمین بلاول نے کہا کہ چاہتا ہوں صوبائی سطح پر بھی آئینی عدالت ہو، ہم اب تک جو حکومت سے طےکرچکے ہیں وہ وفاقی آئینی عدالت ہے، ہم کہہ رہے ہیں کہ کمیٹی اتفاق رائے سے جج کا فیصلہ کرے، کمیٹی جس کو اتفاق رائے سے جج بنائے اسی کو جج بننا چاہیے، ہم ایسا نظام بنائیں جو آگے جاکر ہمیں تحفظ دلاسکے۔