ملک اشرف : منشیات کے ملزم کے گواہوں کے ٹرائل کورٹ میں بیانات قلمبند نہ کروانے پر لاہور ہائیکورٹ نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر پر اظہار ناراضگی کرتے ہوئے انہیں گواہوں کے بیانات مکمل کروانے کے لئے ایک ماہ کی مہلت دیتے ہوئے وارننگ دی ہے۔
جسٹس شہرام سرور چوہدری نے منشیات کےملزم علی حسن کی درخواست ضمانت پر سماعت کی ,ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر سمیت دیگر پولیس افسران سرکاری وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے ، جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا تم سی سی پی او ہو، ڈی آئی جی ذیشان اصغر نے جواب دیا
نہیں سر ، میں سی سی پی او نہیں ہوں ، جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ڈی آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ کو تو بلایا ہی نہیں ،تم ہو کون ؟ عدالت نے تو سی سی پی او کو طلب کیا تھا ،ڈی آئی جی نے جواب دیا میں ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ہوں ، سی سی پی او کو ابھی بلوا لیتے ہیں ، سر صرف دو گواہوں کے بیانات ٹرائل کورٹس میں ہونا باقی رہ گئے ہیں ، جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ڈی آئی جی انویسٹیگیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا آپ دونوں گواہوں کے بیانات تو کروا نہیں کروا سکے، آپ نے کیا سپرویزن کرنی ہے، آپ نے رپورٹ دی ہے، کہ گواہان کی تنخواہیں بند کردی ہیں ، کیا یہ آپ کا کام ہے،تنخواہیں بند کرنا تو عدالتوں کا کام ہے، آپ ڈی جی آئی جی انویسٹیگیشن ہیں ، بتائیں آپ کیا سپرویزن کررہے ہیں ، ڈی آئی جی ذیشان اصغر نے جواب دیا دو گواہ ہوگئے ہیں ، فاضل جج نے ڈی آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا باقی کس نے کروانے ہیں ، آپ وہی ہو ناں جو ایک ضلع میں ڈی پی او بھی لگے رہے ہو، آپ کا تو پتہ ہے ، جیسے ہو،،آپ بتائیں ، آپ نے عدالت کے حکم پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا ، ڈی آئی جی انویسٹیگیشن ذیشان اصغر خاموش کھڑے رہے ، جسٹس شہرام سرور چوہدری نے ڈی آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا عدالتوں میں اپنے گواہوں کو پیش نہیں کرواسکتے ، عدالت کا آرڈر ہے آپ اس کی پرواہ نہیں کررہے، اگر گواہ ہی پیش نہیں کرواسکتے تو اپ نے کیا انویسٹیگیشن کی سپرویزن کرنا ہے ؟ ،ہائیکورٹ کے آرڈر پر عمل نہیں ہورہا ، نچلی عدالتوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں ، آپ ڈی آئی جی ہیں ، آپ کو وارننگ دے رہا ہوں کہ گواہوں کے بیانات ایک ماہ میں قلمبند کروانے کے لئے ، اگر کچھ نہ ہوا تو سمجھ لینا کہ آپ کے ساتھ کیا ہوگا، عدالت نے کیس کی مزید سماعت ایک ماہ کے لئے ملتوی کردی