ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

سموگ اور ڈفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے سکولوں کی بندِش؛نزلَہ بَرعضو ضَعِیف

تحریر: وسِیم عظمت

Smog, Lahore Air Quality index, city42 , Differently Disabled Children, Special Education institutions, city42 , D.G Environment Punjab
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

ضلع لاہور میں کچھ لال بھجکڑوں نے ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کو "سموگ سے بچانے" کے نام پر گھروں میں قید کرنے کا حکم جاری کر دیا ہے جو آج صبح سے نافذ ہو رہا ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ لال بھجکڑ خود کو "سموگ سے بچانے" کے عظیم مشن پر عمل کرتے اور خود کو اپنے گھر میں قید کر لیتے۔ یہ ہوتا تو یقیناً  تمام شہریوں کے لئے آسمانی نعمت ثابت ہوتا کیونکہ یہ  پنجاب کے عوام کو اچھا قدرتی ماحول دینے کے ادارے "تحفظ ماحولیات ایجنسی"  سے متعلق ہیں۔ ان کی نام نہاد قابلیت  کچھ بھی ہو، پرفارمنس یہ ہے کہ آج پنجاب "دھویں کی آلودگی" کے پیچیدہ مسئلہ کے سبب فالج جیسی صورتحال کا شکار دکھائی دیتا ہے۔ ان بیوروکریٹس کی "کامن سینس کی استعداد"  ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے سکول مسلسل تین ماہ کے لئے بند کر دینے کا حکم کل جاری کرنے اور آج نافذ کر ڈالنے سے مترشح ہو رہی ہے۔ پہلے یہ اطلاع آئی تھی کہ ڈی جی انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی عمران  حمید نے سپیشل ایجوکیشن سکولوں کو ان بچوں کو  تین ماہ کی جبری چھٹی پر بھیجنے کا حکم دیا ہے جن کو  برونکو ویسکولر اور کارڈیو ویسکولر ڈیزیز ہیں اور جن بچوں کو  امیونو ڈیفیشنسیز ہیں، سپیشل ایجوکیشن سکولوں سے کہا گیا تھا کہ ان بچوں کے لئے یا تو آن لائن تعلیم کا بندوبست کیا جائے یا تین ماہ کی جبری چھٹی کے بعد ان کے سلیبس کور کروانے کا انتظام کیا جائے۔ 

بعد میں میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ سپیشل ایجوکیشن سکولوں کو ہی تین ماہ کیلئے بند کر دیا گیا ہے۔  اس اطلاع کی رات گئے تک کسی نے تردید نہیں کی۔

ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے سکول بند کر دینے کے حکم میں کیا خرابی ہے؟

اگر ایسا کوئی حکم واقعی جاری ہوا ہے کہ سپیشل ایجوکیشن سکولوں کو ہی تین ماہ کیلئے بند کر دیا جائے تو اس مطلق فرعونیت کے مظہر حکم میں پہلی خرابی یہ ہے کہ پنجاب میں کوئی ایسی صورتحال ہے ہی نہیں جو خاص طور سے سکول جانے والے (ڈیفرنٹلی ایبلڈ اور نارمل دونوں)  بچوں کو اس قدر شدت سے متاثر کر رہی ہو کہ انہیں تعلیم اور سکول کی سوشلائزیشن سے محروم کر کے گھروں پر قید کر دینے کا فیصلہ کرنا پڑے۔ ہسپتالوں کے او پی ڈی اور ایمرجنسی کے اعداد و شمار اس کے گواہ ہیں۔

 ایسی کسی صورتحال کی کسی سائنٹفک سٹڈی میں نشان دہی نہیں ہوئی۔ دراصل ایسی کوئی سائنٹفک سٹڈی کی ہی نہیں گئی۔

اس مبینہ فیصلہ میں بنیادی  خرابی یہ ہے کہ بچے خواہ ڈیفرنٹلی ایبلڈ ہوں یا سو فیصد نارمل، ان کا "سموگ " سے کم یا زیادہ متاثر ہونا کسی سائنٹفک سٹڈی میں سامنے نہیں آیا۔ یہ صرف خود ساختہ تصور ہے کہ بچے سموگ سے زیادہ متاثر ہوں گے اور بڑے کم۔

اگر ماحول میں کچھ زہریلا مواد  واقعتاً آ گیا ہے جو  واقعی انسانوں کو متاثر کر سکتا ہے، تو یہ زہریلا مواد کم عمر کے بچوں اور زیادہ عمر کے بالغوں کو متاثر کرنے میں زیادہ فرق نہیں کرے گا، اور  اگر محض تخیل کی پرواز کے زیر اثر یہ مان ہی لیا جائے کہ بچے آلودگی کی کسی خاص قسم سے زیادہ متاثر ہوں گے  تو یقیناً  ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچے اور نارمل بچے تو اس سے یکساں متاثر ہوں گے۔  یہ جاننے کے لئے ہمارے پاس کوئی ٹوٹی پھوٹی ریسرچ سٹڈی بھی موجود نہیں کہ زہر آلود ہوا کسی بصارت سے محروم بچے اور کسی دیکھنے کی صلاحیت رکھنے والے بچے کو اور کسی سماعت سے محروم بچے اور کسی سننے کی صلاحیت رکھنے والے بچے کو، کسی تھوڑے آئی کیو کے حامل بچے اور کسی نارمل آئی کیو کے حامل بچے کو مختلف  طریقوں سے کیونکر متاثر کرے گی؟

اس لئے کامن سینس ہمیں رہنمائی کرتی ہے کہ اگر واقعی ماحول میں کوئی غیر معمولی خطرہ موجود ہے جو بچوں کو متاثر کر سکتا ہے تو یقیناً ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں اور نارمل بچوں میں تفریق کئے بغیر سب بچوں کو گھروں میں قید کر ڈالنا چاہئے-

  لیکن صرف بچے ہی کیوں، بڑے بھی (خواہ قدرے کم یا قدرے زیادہ وقت تک زہریلی ہوا میں ایکسپوز ہونے سے) اس زہریلے مواد سے اسی طرح متاثر ہوتے ہوں گے جیسے کہ بچے؛ تب سارے بڑوں کو بھی گھروں میں قید کر دینا چاہئے تاکہ وہ گھر سے باہر کی زہریلی ہوا میں سانس لینے سے بچ جائیں۔ 

حقائق

ڈس ایبلڈ/ سپیشل/ ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کی کمیونٹی کے لئے خاص طور سے- اور نارمل بچوں کے لئے عمومی طور پر- سکول صرف سکول نہیں، بلکہ ان کی سوشل لائف، ان کی "ورک پلیس" اور نسبتاً نارمل زندگی گزارنے کے لئے درکار واحد قابلِ عمل پلیٹ فارم ہے۔  اسے بند کر دینا، وہ بھی بِنا وارننگ کے، شدید شاک دینے والا کام ہے، اس پر عمل کرنے سے لاتعداد بچے ٹراما کا شکار ہوں گے، بلکہ اس وقت ہو رہے ہیں۔

بچے یا بالغ ماحول کی آلودگی کے متعلق انفرادی ردعمل رکھتے ہیں، یکساں خراب / آلودہ ماحول میں کچھ بالغ, بہت سے بچوں کی نسبت زیادہ ولنریبل ہو سکتے ہیں.  تمام بچوں پر اور تمام بڑوں پر آلودہ ماحول ایک ہی طرح سے اثر انداز نہیں ہوتا۔

بچوں_ خصوصاً ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کے سکول اگر نسبتاً صاف ماحول والے علاقے/ علاقوں میں ہیں اور ان کے گھر نسبتاً  خراب/ زیادہ آلودہ ہوا والے علاقوں میں ہیں تو انہیں صاف ماحول والے سکولوں میں جانے سے روک کر خراب اور زیادہ آلودہ ہوا کے علاقوں میں واقع گھروں میں قید کر دینے کو کیا کہا جا سکتا ہے! سکول کن علاقوں میں ہیں، وہ علاقے کتنے آلودہ ہیں، گھر کن علاقوں میں ہیں اور وہ علاقے کتنے آلودہ ہیں؟  کم وسائل رکھنے والے شہریوں کو تو نہیں پتہ،یہ معلومات ماحولیات کے ڈی جی واقعی نہیں ہیں۔

 کیونکہ لاہور کے آلودگی سے زیادہ متاثر علاقوں (ہاٹ سپاٹ علاقوں) میں ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کا ایک بھی سکول نہیں البتہ سینکڑوں ہزاروں ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچے ان زیادہ آلودہ علاقوں سے بسوں میں بیٹھ کر کم آلودہ یا کافی حد تک صاف ستھرے ماحول والے علاقوں میں دن گزارنے کیلئے جاتے ہیں۔ اور آج انہین نسبتاً صاف ہوا میں سانس لینے اور خوش رہنے کے لئے لازمی سوشلائزیشن سے بیک جنبشِ قلم محروم کر دیا گیا ہے۔

سموگ کے حقائق از حد سادہ ہیں

"سموگ" کا تعلق دھویں سے ہے جو فیکٹریوں، آٹو موبائل گاڑیوں یعنی کاروں، بسوں، موٹر سائیکلوں اور رکشا سے پیدا ہو رہا ہے اور جزواً دیگر ذرائع مثلاً ہمہ اقسام آگ وغیرہ سے۔

دھواں لوکلائزڈ سموگ پیدا کرتا ہے۔ یہ بہت دور تک ہوا میں سفر نہیں کرتا، دھویں میں موجود ٹھوس پارٹیکلز بالآخر وزنی ہونے کی وجہ سے نیچے زمین پر آ جاتے ہیں۔

لاہور میں سموگ- اگر ائیر کوالٹی انڈیکس کے اوپر جاتے فگرز سے یہ اندھا دھند نتیجہ نکالنا ہی  ضروری ہے کہ خراب ائیر کوالٹی کا مطلب بہت زیادہ سموگ کی موجودگی ہے- بہرحال ایک لوکلائزڈ  آلودگی کی پیداوار ہے جس کو ختم کرنے کے لئے آلودگی ختم کرنا ضروری ہے نہ کہ انسانوں کو گھروں میں بند کر دینا۔

انسانوں کی بجائے گاڑیوں کو قید کریں

انسانوں کو گھروں میں بند کر دینے سے کہیں زیادہ آسان-اور کامن سینس- حل دھواں پیدا کرنے والی بلاؤں یعنی ہمہ اقسام کی گاڑیوں کو قید کر دینا ہے اور اس کے ساتھ ان بلاؤں کو بھی قید کر دینا واجب ہے جو دھواں پیدا ہونے سے روکنے یعنی ماحول کو صاف رکھنے کی سالہا سال سے تنخواہیں اورر مراعات بے تکان وصولتے رہے اور دھویں کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئے یہاں تک کہ سردی سر پر آ گئی۔

فیکٹریوں کی آلودگی آنکھیں بند کر لینے سے بند نہیں ہوتی

چھوٹی بڑی ہزاروں فیکٹریاں دھویں سے لے کر ٹاکسک گیسوں تک بہت کچھ از حد خراب، ہمارے ماحول میں چھوڑ رہی ہیں۔ ان فیکٹریوں کو ماحول کے تحفظ کے ریگولیشنز کے مطابق ریگولیٹ کرنا جس ادارہ کی ذمہ داری ہے اس کے پاس لاکھ جواز اور ایکسکیوز ہوں، ناکامی بہر حال ناکامی ہے جس کا اظہار خراب ائیر کوالٹی انڈیکس سے روزانہ صبح شام ہوتا ہے۔

اس ذمہ داری کو قبول کرنےکی اخلاقی جرات کسی میں نہیں، اگر کچھ درجن اہلکاروں نے طویل عرصہ تک اس سنگین تر ہوتی آلودگی کو روکنے کی بجائے تحفظ نہ دیا ہوتا تو لاہور   مصری شاہ جیسے مرکزی علاقوں سے لے کر قائد اعظم انڈسٹریل اسٹیٹ سے لے کر سندر انڈسٹریل اسٹیٹ اور روہی نالے کے اطراف کی سینکڑوں، ہزاروں فیکٹریوں کی پیدا کی ہوئی آلودگی میں یوں غلطاں نہ ہوتا کہ بچوں کو تین تین ماہ کیلئے گھروں میں قید کرنے کی سزائیں سنانا پڑتیں۔

درست سمت میں سادہ اقدامات

ائیر کوالٹی انڈیکس اور دیگر دستیاب معلومات کی بنیاد  پر زیادہ آلودہ ماحول والے علاقوں میں آلودگی پھیلانے والے سورسز یعنی خراب گاڑیوں اور دیگر عوامل کو روکنے کی ابتدا ہو چکی ہے، اسے بلا رکاوٹ آگے بڑھایا جانا چاہئے، دباؤ خواہ کتنا ہی ہو اس کا مقابلہ کیا جانا چاہئے۔

ماحول کیلئے خراب موٹر بائیکس، چاند گاڑیوں، کاروں کو  مکمل طور پر، اور نسبتاً کم ضرر رساں باقی ماندہ آٹو موبائلز کو ہفتے میں تین دن مکمل بند رکھنا اگر  آلودگی واقعی بڑھے تو لازمی ہو جائے گا۔ 

آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں کو اگر چند ہفتوں کے لئے بند کروا دیا جائے تو ان کے مالکان کو وہ ضروری سبق سیکھنے کا موقع مل جائے گا جس سے انہیں اب تک معلوم نہیں کن وجوہات کی بنا پر محروم رکھا جاتا رہا ہے۔ یہ  بچوں کو سکول سے محروم رکھنے سے بہرحال کم لاگت کے حامل فیصلے ہوں گے۔

خدشہ ہے کہ اگر صوبائی حکومت کو عملاً "بے زبان" ڈیفرنٹلی ایبلڈ بچوں کی کمیونٹی کو ماحول کی آلودگی کی سزا دینے پر نہ ٹوکا گیا تو آنے والے دنوں میں مزید سنگین نوعیت کی غلطیاں ہوں گی۔ بہتر ہو گا کہ ہم آج  نام نہاد  "پری وینٹِو  میژرمنٹ"  کی آڑ میں سکول بند کرنے کے فیصلہ کی ریشنیل پر سوال کریں۔  اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر ماحول کے تحفظ کے ذمہ دار ادارہ کی ناکامی کی ذمہ داری کا تعین کرنا اور ناکام لال بھجکڑوں کو  ہی فیصلہ سازی کا لیتھل اختیار دے ڈالنے کی حکمت پر بھی سوال کیا جائے۔ آخر سموگ سے متاثر تو ہم ہی ہو رہے ہیں، فیصلہ بھی ہمارا ہی ہونا چاہئے۔