ویب ڈیسک: مصنوعی ذہانت سے بنائے گئے ادویات ایجاد کرنے والے پلیٹ فارم نے صرف ایک کمانڈ دیئے جانے پر ایک ہی دن میں انسانوں کے لئے انتہائی تباہ کن لا تعداد زہریلے مواد بنا کر سائنسدانوں اور کیمیا دانوں کو پریشان کر دیا۔
امریکی ریاست شمالی کیرولینا کے شہر رالی میں قائم کولیبوریشنز فارماسوٹیکلز کے چیف ایگزیکٹو آفیسرشان ایکنز نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ وہ انتہائی کم تعداد میں سامنے آنے والی بیماریوں کی دوائیں بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ایسی ادویات بنانے سے ہم امیر تو نہیں ہوں گے لیکن کم از کم ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ ہم معاشرے کے لیے کچھ کر رہے ہیں۔ دو سال پہلے انہی ادویات سازی سے متعلق روم میں ہونے والی "سپیز کنورجنس کانفرنس" میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔ یہ کانفرنس بائیولوجیکل اور کیمیکل ریسرچ میں ایسے نئے رجحانات کے بارے میں تھی جن سے سکیورٹی خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ایکنز کہتے ہیں کہ ’اس کانفرنس میں وہ "ٹیکنالوجی کے غلط استعمال، سائنس اور سائنسی طریقوں" میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ان سے کانفرنس کی جانب سے ایک پریزینٹیشن بنانے کے لئے کہا گیا تھا ۔
ایکنز کی فارما کمپنی کلیبوریشنز فارماسوٹیکلز نے نایاب بیماریوں کے لیے ادویات ایجاد کرنے کے لیے ایک مصنوعی ذہانت کا پلیٹ فارم "میگاسن" بنا رکھاتھا۔
"میگاسن" نہ صرف ایسے مالیکیولز میں چھان بین کرتی ہے جو پہلے سے موجود ہوتے ہیں تاکہ یہ علم ہو سکے کہ کوئی مخصوص مالیکیول کسی بیماری کے لیے مفید ثابت ہو گا یا نہیں لیکن اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ ایسے مالیکیول بھی ڈیزائن کر سکتا ہے جو اس نے کبھی نہ دیکھے ہوں۔
روم والی کانفرنس میں پریذینٹیشن پیش کرنے کے لئے ایکنز اور ان کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر فابیو اربینا نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ" اگر میگاسن غط ہاتھوں میں چلا جائے تو کیا ہو سکتا ہے"۔اس طرح اس تجربے کی بنیاد رکھی گئی جسے وہ "ڈاکٹر مالواڈو پراجیکٹ" کہتے ہیں.
میگاسن پہلے تو ایسی ادویات بناتا تھا جو کسی بھی صورت میں انسان کے لئے زہریلی نہ ہوں۔ تجرباتی طور پر انہوں نے اس کی ہدایات میں تبدیلی کر کے "غیر زہریلی" کہ جگہ " زہریلی" کی ہدایت شامل کر دی۔ ایکنز نے بتایا کہ ’ہم نے میگاسن کےماڈل کو غیر زہریلے کی جگہ زہریلے کی کمانڈ دی، یہ کسی پروگرام میں0 اور 1 کو تبدیل کرنے جیسا تھا، انتہائی آسان۔‘
انھوں نے اینٹر کا بٹن دبایا اور میگاسن کام کرنے لگا۔ اگلے روز اس ماڈل نے انھیں ایسے لاکھوں مالیکیولز کی فہرست دے دی جو زہریلے تھے۔ اب انھیں یہ دیکھنا تھا کہ ان میں سے کتنے ایسے ہیں جنھیں وہ جانتے ہیں۔وہ اس حوالے سے نتائج دیکھ کر حیران ہو گئے۔
صرف ایک بٹن دبانے سے میگاسن نے ایک انتہائی خوفناک وی ایکس نرو ایجنٹ کے مالیکیول کو انجینیئر کر دیا تھا جس پر اقوامِ متحدہ کی جانب سے پابندی عائد کی گئی ہے اور اسے بڑے پیمانے پر تباہی کے آلہ کار کے طور پر لسٹ کیا گیا ہے۔
یہ اب تک بنائے جانے والے کیمیکلز میں سے سب سے زیادہ ہلاکت خیز سمجھا جاتا ہے کیونکہ اگر انسانی جلد سے اس کا ایک قطرہ بھی چھو جائے تو یہ کسی بھی انسان کو ہلاک کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں یہ بھی علم ہوا کہ میگاسن ’ایسے مالیکیولز بھی ڈھونڈنے میں کامیاب ہو گیا ہے جو ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن ان میں بہتری لا کر انھیں انتہائی طاقتور کیمکل ہتھیاروں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔‘
اس بارے میں تشویشناک بات یہ بھی تھا کہ جہاں "ڈاکٹر مالواڈو پروجیکٹ" ایک تھیوریٹیکل تجربہ تھا، شر پسند افراد بھی ’ایسا کر سکتے تھے، اگر انھوں نے اب تک نہیں کیا۔‘
انھوں نے اس حوالے سے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’آپ کو پی ایچ ڈی کرنے کی بھی ضرورت نہیں، صرف کوڈنگ آنی چاہیے، ایک عام سا لیپ ٹاپ اس کے علاوہ سب کچھ ہی مفت میں آن لائن دستیاب ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کسی کیمسٹ کو اس کے بارے میں علم ہو جائے وہ ان مالیکیولز کو اسلحے میں تبدیل کرنا چاہیے، تو کیونکہ کسی کو بھی ان کی موجودگی کے بارے میں علم نہیں ہے، اس لیے ان ہتھیاروں کا پتا چلانا یا ان کا حل ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہو گا۔
بی بی سی کے مطابق ایکنز نے آڑٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے زہریلے مالیکیولز بنانے کے پروجیکٹ "ڈاکٹر مالواڈو" کے زریعہ لاتعداد نئے زہریلے مالیکول بنانے کے تجربہ کی تفصیلات روم کانفرنس میں پیژ نہیں کیں تاہم انہوں نے اپنی پریذینٹیشن میں ان تمام حقائق کا سرسری تجزیہ پیش کیا۔ڈھکے چھپے الفاظ میں ان کی بیان کردہ باتوں کے مثبت نتائج نکلے اور روم کانفرنس کے بعد کیمیائی ہتھیاروں، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، فارماسوٹیکل یا یہاں تک فلسفیوں کے درمیان بھی بحث کا آغاز ہو گیا۔
ایکنز کے مصنوعی ذہانت سے کام کرنے والے پلیٹ فارم "میگاسن" نے جو ہزاروں نئے زہریلے مالیکول بنائے ہیں وہ اب تک ان کی فہرست منظرِ عام پر لانے پر آمادہ نہیں ہیں۔ ایکنز اور ان کی ٹیم کو کو وائٹ ہاؤس می آفس آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی پالیسی اینڈ دی نیشنل سکیورٹی کونسل میں بھی مدعو کیا گیا لیکن انھوں نے یہ فہرست وائٹ ہاوس سے بھی شیئر نہیں کی۔