جیل روڈ(عرفان ملک) سیف سٹیز اتھارٹی سفید ہاتھی ثابت ہونے لگا، سیف سٹیز اتھارٹی کو تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں فنڈز جاری کرنے کا معاملہ اُلجھ گیا، سیف سٹیز اتھارٹی کو تنخواہوں اور دیگر اخراجات کی مد میں جاری ہونیوالے فنڈز پر اعتراضات لگ گئے۔
لاہور میں ہونیوالے ٹی ٹونٹی میچز کے دوران سیف سٹی اتھارٹی کو کیمرے بند ہونے اور اس کیساتھ اہلکاروں کی تنخواہیں ادا کرنے کیلئے لا اینڈ آرڈر فنڈ سے پیسے جاری کیے گئے تھے، محکمہ خزانہ پنجاب نے سیف سٹیز کو نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ جاری کی تھی، جس پر اب محکمے کو مشکلات کا شکار ہونا پڑ رہا ہے،بجٹ ریکارڈ میں نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ کو شامل کرنے میں دشواری ہو رہی ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے بجٹ سپلیمنٹری گرانٹ میں محکمہ خزانہ نے قوانین کو بائی پاس کیا تاہم اب آڈٹ پیرا سے بچنے کیلئے نیٹ سپلیمنٹری گرانٹ کو ٹیکنیکل گرانٹ میں تبدیل کرنے کے لیے کابینہ کو سمری بھجوا دی گئی ہے۔
دوسری جانب کورونالاک ڈاﺅن میں نرمی کے بعد لاہوریوں کی جانب سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں بڑھنے لگی ہیں،شہری پرانی ڈگر پہ چلنا شروع ہوگئے، 18اپریل سے ای چالاننگ دوبارہ شروع ہونے کے دس روزمیں 45ہزار شہریوں کے گھر وں میں سگنل توڑنے ،ون وے کی خلاف ورزی،لائن، لین کی پابندی نہ کرنے پرچالان بھجوائے گئے۔
حکام کا کہنا ہے کہ شہرمیں ناکہ بندی کے باوجودٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں جاری ہیں، عام حالات میں روزانہ 6 سے 8 ہزار ای چالان ہوتے تھے،ای چالاننگ سے بچنے کےلئے شہری ٹریفک قوانین پرعملدرآمدیقینی بنائیں۔
علاوہ ازیں کورونا وائرس کےبڑھتے ہوئے اثرات کی روک تھام کیلئےفیلڈمیں کام کرنیوالےاداروں کی مددکیلئےسب سے اہم ادارہ سیف سٹی اتھارٹی لاوارث ہوگیا،سی اے او، سی او او کے بعد ایم ڈی سیف سٹی کا کنٹریکٹ بھی ختم، آئی جی پنجاب کی جانب سے بھجوائے جانیوالے نئے افسران کےناموں پر فیصلہ نہیں کیا جاسکا۔