(وقار گھمن) ٹھوکر نیاز بیگ میں بین المسالک نےرواداری کی عظیم مثال قائم کردی، اہل سنت اور اہل تشیع افراد کی اجتماعی شادیاں کا اہتمام کیا گیا۔
تفصیلات کے مطابق ہمارے معاشرے کی ستم ظریفی ہےکہ اس میں بیٹی کی شادی جیسا مقدس فریضہ بھی والدین پر بوجھ بن چکا ہے،لڑکے والے منہ مانگے جہیز کے منتظر ہوتےہیں جس کی وجہ سے والدین بیٹی کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے جہیز کی فکر میں لگ جاتے ہیں،باپ اور بھائی پندرہ سے بیس سال محنت کر کے ایک بچی کے جہیز کے سامان کی بمشکل صورت بنا سکتے ہیں،ہوتا یوں ہے کہ والدین کی کل زندگی بچیوں کی رخصتی کی نظر ہوجاتی ہے۔
لیکن پھر بھی سب والدین کے لیے ایسا ممکن نہیں ہوتا، والدین اور بھائی انتہائی کوشش کے باوجود لڑکے والوں کی ضرورت کے مطابق جہیز تیار نہیں کر سکتے،یہ بات بھی دیکھنے میں آتی ہے کہ مایوس ہو کر والدین یابھائی خود کشی کرلیتے ہیں اور بعض دفعہ تو لڑکی خود کوخاندان پر بوجھ سمجھ کر خود کشی کر لیتی ہے اور معاشرہ بے حسی کا پیکر بنا ہوا اس برائی کے ہاتھوں پس رہا ہے۔
ایسے حالات میں کل مسالک علماء نے اس معاشرتی مرض کی بروقت تشخیص کرتے ہوئے اس کے علاج کے لیے عملی قدم اٹھایا، ٹھوکر نیاز بیگ میں اہل سنت اور اہل تشیع افراد کی اجتماعی شادیاں کا اہتمام کیا گیا،تقریب میں کل مسالک علماء بورڈ کے سربراہ مولانا محمد عاصم مخدوم ،کوآرڈینیٹر انجمن مہریہ نصیریہ لاہور علامہ محمد حسین گولڑوی،عبدالغفار گولڑوی، علامہ اصغر عارف چشتی،حاجی امداد حسین گولڑوی، علامہ سعید احمد لغاری سمیت دیگر نے شرکت کی۔
مولاناعاصم مخدوم کا کہنا تھا کہ اہل سنت اور اہل تشیع کا اپنی خوشیاں اکٹھے منانا پرامن اور خوشحال پاکستان کی علامت ہے،ان کا مزید کہناتھا کہ ہر فرد اپنے ملک کو پرامن دیکھنے کا خواہش مند ہے،پرامن معاشرہ کی تشکیل کے لئے ہمیں ہر مسلک اور قوم کے فرد کو قبول کرنا ہوگا۔