ویب ڈیسک: بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک رکن پارلیمنٹ کی ہراسمنٹ کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج کرنے والی خاتون پہلوانوں کےلئے نئی دہلی میں نئی پارلیمنٹ کے افتتاح کا دن یقیناً برا دن تھا، پہلے تو پولیس نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور انہیں گرفتار کر لیا، پھر دہلی میں پارلیمنٹ کے قریب احتجاج کرنے پر گرفتار کی گئی جب ایک خاتون پہلوان نے پولیس حراست میں اپنی اور دوسرے گرفتار پہلوانوں کی تصویر سوشل میڈیا میں پوسٹ کی تو بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے اس تصویر کو ایڈٹ کر کے پولیس سے پار کھا کر بس میں بیٹھی ہوئی لڑکیوں کو ہنستے ہوئے چہرے بنا دیا، اس ایڈٹ کی گئی تصویر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامیوں نے وائرل کیا اور اس کو بھاجپا کے کئی لیڈروں نے بھی شئیر کیا۔
ایک بین الاقوامی صحافتی ادارہ نے تصویریں ایڈٹ کر کے پھیلانے کے اس واقعہ کی تحقیقات کی تو پتہ چلا کہ خاتون پہلوانوں کی پولیس حراست میں اصل تصویر ٹویٹر میں ظاہر ہونے کے کچھ ہی دیر بعد اس کی ایڈٹ کی گئی نقل بھی ٹویٹر میں نمودار ہو گئی جس میں لڑکیوں کو ہنستے دکھایا گیا تھا۔ اور کہا گیا تھا کہ ان پہلوانوں کو شرم آنا چاہئے جنہوں نے صرف نیشنل گیمز میں شامل ہونے سے بچنے کے لئے بدامنی پھیلا دی۔
کچھ ہی دیر میں یہ فیک تصویر نہ صرف وائرل ہو گئی بلکہ بی جے پی کے کچھ لیڈروں اور حامیوں نے بھی اس تصویر کو شیئر کیا، حالانکہ بعد میں کچھ نے اپنے ٹویٹس کو ڈیلیٹ کر دیا۔
اپوزیشن انڈین نیشنل کانگریس نے حکمراں جماعت کے سوشل میڈیا یونٹ، بی جے پی انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) سیل پر اصل تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا الزام لگایا - یہی الزام تصویر کی ڈسٹارشن کے زریعہ بے عزتی کا نشانہ بننے والے ریسلرز نے بھی لگایا۔
جب اصل تصویر پوسٹ کرنے والی ریسلر سنگیتا پھوگٹ سے تحقیقات کرنے والی صحافی نے پوچھا کہ انہوں نے پولیس حراست سے تصویر پوسٹ ہی کیوں کی تھی تو سنگیتا نے بتایا کہ اس وقت ہمیں مار پٹ کر بس میں ڈالا گیا تھا اور ہمیں خوف تھا کہ وہ پتہ نہیں ہمیں کہاں لے جائیں گے۔