ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

شام میں جہادی باغیوں کی غیر متوقع قبضوں نے یروشلم اور تہران میں بیک وقت خطرے کی گھنٹیاں بجا دیں

Syria rebels advance in Hallab, city42, Aleppo , Bashar Alasad, Abbas Iraqchi, Netanyahu, Jerusalem and Tehran
کیپشن: جہادی گروپ حیات تحریر الشام کے جنگجوؤں نے 29 نومبر 2024 کو غربا کے علاقے میں بین الاقوامی ایم 5 ہائی وے پر شامی فوج کے ایک ٹینک پر قبضہ کر لیا۔ اس علاقے مین شامی فوج نے کئی گاڑیاں اور ٹینک چھوڑ دیئے اور پسپائی اختیار کر لی (رامی السید / اے ایف پی)
Stay tuned with 24 News HD Android App
Get it on Google Play

شام کے صوبہ حلب کے بیشتر علاقوں پر تین دن مین جہادی باغیوں کے قبضے نے یروشلم اور تہران میں بیک وقت خطرے کی گھنٹی بجا دی۔ شام کے بڑے شہر الیپو (حلب) اور کئی دوسرے قصبوں پر جہادی باغیوں کے قبضے کے بعد اسرائیل کے  وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے  دفاعی اسٹیبلشمنٹ کے سربراہوں کے ساتھ  ایک خصوصی سیکورٹی میٹنگ کی۔ دوسری طرف تہران مین وزیر خارجہ عباس عراقچی نے "شام کی حکومت، قوم اور فوج کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔"

شام کے صدر بشار الاسد کے مخالف باغی جہادیوں نے بدھ سے جمعہ کے دوران حکومت کے زیر قبضہ قصبوں پر اچانک حملہ کیا۔ جہادی گروپ حیات تحریر الشام کی قیادت میں  بشار الاسد کے مخالف کئی گروپوں کے  جنگجوؤں نے بدھ کے روز شمالی صوبے حلب کے ایک درجن قصبوں اور دیہاتوں پر حملہ کیا۔

جمعہ کے روز انہوں نے کہا کہ وہ خود حلب شہر کے مرکز تک پہنچ گئے ہیں، ہفتہ کے روز  انہوں نے ایرانی اور روس کی حمایت یافتہ حکومت کی افواج کے خلاف  حملے میں مزید نمایاں کامیابی حاصل کی۔ اسد اور اس کے اتحادیوں روس، ایران اور علاقائی شیعہ ملیشیا نے 2016 کے آخر میں حلب کے تمام شہر پر دوبارہ قبضہ کر لیا تھا، باغیوں نے کئی مہینوں کی بمباری اور محاصرے کے بعد اس جنگ میں پیچھے ہٹنے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔

اسرائیل کے چینل 12 نیوز نے اطلاع دی ہے کہ یروشلم شام میں افراتفری کے ممکنہ پھیلاؤ کے اثرات کے ساتھ ساتھ غیر متعینہ شامی اسٹریٹجک ہتھیاروں کےجہادیوں کے  ہاتھوں میں جانے کے امکان کے بارے میں فکر مند ہے۔

ایک نامعلوم اسرائیلی اہلکار نےنیوز ویب سائٹ  Ynet کو بتایا: "یہ وہ چیز ہے جس کی ہمیں قریب سے نگرانی کرنے اور یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ کیسے  پھیلتی ہے۔"

اس اہلکار نے مزید کہا، "لازمی نہیں کہ یہ ہم پر اثر انداز نہیں ہو، خاص طور پر مختصر مدت میں تو ایسا کوئی امکان نہیں، لیکن پڑوسی ملک میں استحکام کا کوئی کٹاؤ ہم پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں تبدیلی کے مواقع بھی موجود ہیں۔"

برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق  شام مین اچانک بھڑکنے والی یہ لڑائی حالیہ برسوں میں سب سے مہلک ترین لڑائی ہے، جس میں تین دن میں 255 افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر جنگجو تھے، لیکن ان میں 24 شہری بھی شامل ہیں، جن میں سے زیادہ تر روسی فضائی حملوں میں مارے گئے۔

سیرئین آبزرویٹری نام کا یہ برطانوی ادارہ شام کے اندر ذرائع کے نیٹ ورک پر انحصار کرتا ہے اور غیر واضح فنڈنگ ​​کا حامل ہے، ماضی میں اس پر  بشار الاسد کی حکومت کے نقصانات کو بڑھان کر بتانے کا الزام لگایا جاتا رہا ہے۔

Caption  انتس نومنبر کو شمال مغربی شامی شہر عدلب کے مشرق میں تفتاناز فوجی ہوائی اڈے کے قریب واقع گاؤں تلہیہ میں جنگجو داخل ہوئے، اس علاقے پر جہادیوں اور ان کے ترکی کے حمایت یافتہ اتحادیوں نے شمالی شام کے صوبہ حلب میں سرکاری فوج کے ساتھ تازہ ترین لڑائیوں میں قبضہ کر لیا۔ (عمر حاج قدور/اے ایف پی)

جیش العزہ کے باغی بریگیڈ کے باغی کمانڈر مصطفیٰ عبدالجبر نے کہا کہ اس تیزی سے پیش قدمی وسیع تر صوبے میں ناکافی ایرانی حمایت یافتہ افرادی قوت کی وجہ سے ہوئی۔ غزہ کی جنگ مشرق وسطیٰ تک پھیلنے کے ساتھ ہی خطے میں ایران کے اتحادیوں کو اسرائیل کے ہاتھوں مسلسل ضربیں لگی ہیں۔

ترک انٹیلی جنس کے ساتھ رابطے میں بتائے جانے والے شامی اپوزیشن کے ذرائع نے بتایا کہ ترکی نے اس حملے کو گرین لائٹ دی ہے۔ لیکن ترکی کی وزارت خارجہ کے ترجمان اونکو کیسیلی نے کہا کہ ترکی خطے میں زیادہ عدم استحکام سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے اور خبردار کیا ہے کہ حالیہ حملوں نے کشیدگی میں کمی کے معاہدوں کو نقصان پہنچایا ہے۔

مارچ 2020 کے بعد یہ سب سے بڑا حملہ تھا، مارچ 2020 میں روس اور ترکی نے تنازعہ کو کم کرنے کے لیے ایک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

شام کے سرکاری ٹیلی ویژن نے باغیوں کے حلب پہنچنے کی تردید کی اور کہا کہ روس شام کی فوج کو فضائی مدد فراہم کر رہا ہے۔

شامی فوج نے کہا کہ اس نے حملے کا مقابلہ جاری رکھا ہوا ہے ، ایک بیان میں کہا کہ اس نے حلب اور ادلب کے دیہی علاقوں میں باغیوں کو بھاری نقصان پہنچایا ہے۔

شام کے بحران کے لیے اقوام متحدہ کے ڈپٹی ریجنل ہیومینٹیرین کوآرڈینیٹر ڈیوڈ کارڈن نے کہا: "ہم شمال مغربی شام میں پیدا ہونے والی صورت حال سے بہت پریشان ہیں۔"

انہوں نے رائٹرز کو بتایا کہ "گزشتہ تین دنوں کے دوران ہونے والے مسلسل حملوں میں کم از کم 27 شہریوں کی جانیں گئی ہیں، جن میں آٹھ سال سے کم عمر کے بچے بھی شامل ہیں۔" "شہری اور شہری بنیادی ڈھانچہ ہدف نہیں ہیں اور بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت ان کا تحفظ ہونا چاہیے۔"

شام کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سانا نے کہا ہے کہ جمعہ کو حلب میں یونیورسٹی کے طلباء کے ہاسٹل پر باغیوں کی گولہ باری سے دو طالب علموں سمیت چار شہری مارے گئے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ آیا وہ ان 27 مرنے والوں میں شامل تھے جن کی اقوام متحدہ کے اہلکار نے اطلاع دی ہے۔

روس اور شام کے جنگی طیاروں نے باغیوں کے حملے کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کے لیے جمعرات کو ترکی کی سرحد کے قریب واقع علاقے پر بمباری کی۔

کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ماسکو باغیوں کے حملے کو شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ حکام دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے لیے تیزی سے کام کریں۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور نے کہا کہ تشدد کی وجہ سے 14,000 سے زیادہ لوگ – تقریباً نصف بچے – بے گھر ہو چکے ہیں۔

Caption  غربا کے علاقے میں 29 نموبر کو  جہادی جنگجوؤں نے قبضہ کر لیا۔ اس تصویر مین وہ  شام کے صدر بشار الاسد کی انتظامیہ کے زیر استعمال  ایک عمارت کے سامنے  بشار الاسد کی تصویر کو آگ لگاتے دکھائی دے رہے ہیں۔  حیات تحریر الشام (ایچ ٹی ایس) کے جہادی اور اس کے اتحادی گروپشام کے شمالی صوبے حلب میں سرکاری فورسز کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔   (عارف وتاد/اے ایف پی)

تہران میں جاری کئے گئے ایک بیان کے مطابق، ایرانی وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اپنے شامی ہم منصب بسام الصباغ کے ساتھ فون پر بات چیت میں "شام کی حکومت، قوم اور فوج کی حمایت جاری رکھنے کا وعدہ کیا۔"

باغی انکلیو میں اے ایف پی کے ایک نمائندے نے جہادیوں کو ٹینکوں میں آگے بڑھتے ہوئے دیکھا جب حلب سے صرف سات کلومیٹر (چار میل سے کچھ زیادہ) کے فاصلے پر ایک علاقے میں فائرنگ کا شدید تبادلہ ہوا۔ اے ایف پی کی تصاویر میں  دکھایا گیا کہ شامی فوج کی طرف سے بھاگتے ہوئے  فوجی ٹینکوں اور دیگر فوجی گاڑیوں کو ترک کر دیا گیا۔

نامہ نگار نے کہا کہ جہادیوں اور ان کے ترکی کے حمایت یافتہ اتحادیوں نے مشترکہ آپریشنز کمانڈ سے احکامات لیے۔

Caption   جمعہ  29 نومبر 2024 کو حکومت مخالف جنگجو حلب-دمشق M5 شاہراہ کے ساتھ نئے قبضے میں لیے گئے شمال مغربی علاقے خان الاصل میں گاڑی چلا  ہوئے دیکھے جا رہے ہیں، جب کہ  ان کے پیچھے دکھائی دینے والی کسی عمارت سے دھواں اٹھ رہا تھا (عمر حج قدور / اے ایف پی)

نیو لائنز انسٹی ٹیوٹ فار اسٹریٹجی اینڈ پالیسی کے تجزیہ کار نک ہیراس نے کہا کہ جنگجو "حلب کے علاقے میں شامی فوجی مہم کے امکان کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔" ہیراس کے مطابق شامی حکومت اور اس کا کلیدی حمایتی روس حلب کا قبضہ چھرانے کے لئے  مہم کی تیاری کر رہے ہیں۔

روس نے 2015 میں شام میں مداخلت کی، جس نے چار سال قبل شروع ہونے والی خانہ جنگی کا رخ حکومت کے حق میں موڑ دیا، روس کی مداخلت سے پہلے شام کے بشار الاسد  کی افواج ملک کے بیشتر حصے پر کنٹرول کھو چکی تھیں۔

روس کے ساتھ  شام کے صدر بشار الاسد کو ایران اور اس کے اتحادی گروپوں بشمول لبنان کی حزب اللہ کی حمایت حاصل ہے۔