تبادلوں کا سونامی

1 Dec, 2019 | 10:51 AM

قیصر کھوکھر

(قیصر کھوکھر) پنجاب میں بیوروکریسی کے تبادلوں کا سونامی شروع ہو گیا ہے اور ڈی سی، کمشنرز اور سیکرٹری، آر پی او ، ڈی پی او ، سی پی او اور سی سی پی او کی سطح کے بڑے پیمانے پر تقرر و تبادلے کر دیئے گئے ہیں اور کئی افسران کو چند ماہ تعیناتی کے بعد ہی تبدیل کر دیا گیا ہے۔

گریڈ 21کے افسر ڈاکٹر راحیل احمد صدیقی کا ایک سال میں پانچ بار تبادلہ کیا گیا ہے۔ کمشنر لاہور کیپٹن (ر) سیف انجم کاا یک سال میں یہ چوتھا تبادلہ ہے۔ شہباز شریف کے دور کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم اور شہبازشریف کی کچن کیبنٹ کا حصہ رہنے والے گریڈ 22 کے افسر میجر (ر) اعظم سلیمان خان چیف سیکرٹری پنجاب بن گئے ہیں۔

 کمشنر لاہور کیپٹن (ر) سیف انجم، سی سی پی او لاہور ڈی آئی جی ذوالفقار حمید چیئرمین پی اینڈ ڈی حامد یعقوب شیخ، ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم مومن آغا، پچھلی حکومت میں بھی اہم پہلوﺅں پر فائز تھے حتی کہ سمیر احمد سید ڈی جی ایل ڈی اے لگ گئے ہیں۔

نسیم صادق کمشنر ڈی جی خان لگ گئے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ موجودہ چیف سیکرٹری پنجاب میجر (ر) اعظم سلیمان خان جن کے متعلق کہاجاتا ہے کہ وہ میاں شہباز شریف کے انتہائی قریب رہے ہیں لیکن جب میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا وقت آیا تو وہ اس وقت وفاقی سیکرٹری داخلہ تعینات تھے اور انہیں میاں شہباز شریف نے میاں نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کی درخواست کی تو انہوں نے اپنے طور پر یہ فیصلہ نہیں کیا اور سارا معاملہ وزیر اعظم پر چھوڑ دیا جس سے وہ وزیر اعظم عمران خان کی گڈ بک میں شامل ہو گئے۔

کہا جاتا ہے کہ میجر (ر) اعظم سلیمان خان ایک پیشہ ور افسر ہیں، ان کا ماضی کسی بھی قسم کی کرپشن سے پاک ہے اور انہوں نے یہ مقام اپنی محنت ، لگن اور کام کی وجہ سے پایا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ ہر حکومت کی آنکھ کا تارا رہے ہیں ۔ مسلم لیگ قاف کے دور میں بھی وہ اہم عہدوں پر تعینات رہے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ بیوروکریٹ کی کسی سے سیاسی وابستگی نہیں ہوتی، وہ صرف اپنی سیٹ اور پوسٹنگ سے ہی مخلص ہوتا ہے۔ یہ سیاسی جماعتیں ہیں جو خواہ مخواہ ان افسران کو اپنے ساتھ نتھی کر لیتی ہیں۔ ہر دور میں افسران اپنی اچھی تقرری لینے کے لئے سیاسی قیادت کی خوشنودی کا سہارا لیتے ہیں اور اقتدار جاتے ہی نئی سیاسی جماعت کے ساتھ اپنی وفاداری دکھا دیتے ہیں۔

 ایک پیشہ ور افسر کی یہ نشانی ہوتی ہے کہ وہ صرف اور صرف اپنے پیشہ کے ساتھ ہی مخلص ہوتا ہے اور اپنی جاب کے دوران حکمرانوں کے کہنے پر کوئی غلط کام نہیں کرتا اور تمام قسم کے الزامات سے اپنے دامن کو بچا کر رکھتا ہے اور یہی افسران ہی ہر دور حکومت میں کامیاب بھی ہوتے ہیں یہی کامیابی کی وجہ موجودہ چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان خان کی ہے۔

  پنجاب حکومت میں حالیہ تقرر و تبادلے بے تکے انداز میں کئے گئے ہیں۔ کئی افسران کو بغیر کسی وجہ کے ہٹا دیا گیا ہے اور کئی کو بغیر سوچے سمجھے اور ان کا پروفائل لئے بغیر ہی انہیں اہم تقرری دے دی گئی ہے۔ نئے تعینات ہونےوالے آئی جی پولیس شعیب دستگیر ماضی میں پنجاب میں اہم اسامیوں پر تعینات رہ چکے ہیں اور وہ پنجاب پولیس کے افسران کو باریک بینی سے جانتے ہیں۔

 انہیں چاہیے کہ فیلڈ میں تعینات کرنے کیلئے افسران کی دیانتداری، اور ان کا کام کرنے کی لگن اور ان کا عوام سے پیار اور پبلک ڈلیوری کو مد نظر رکھیں تاکہ عوام کے تحصیل اور تھانہ کی سطح پر مسائل حل ہو سکیں۔ سب سے زیادہ اہم بات بیٹ افسر، ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کی بہتری ہے جب تک یہ تینوں افسر ٹھیک نہیں ہونگے تھانہ کلچر میں بہتری نہیں آ سکتی ہے۔

نئے چیف سیکرٹری کو چاہئے کہ وہ تحصیلداران ، اے سی اور دیگر تحصیل اور ضلع کی انتظامیہ کی بہتری کے لئے کام کریں اور ضلع کی سطح پر ڈی سی اور ڈی پی او میں موجود تناﺅ کم کریں اور ضلعی انتظامیہ کی آپس میں ورکنگ بہتر کریں اور ان کی کوآرڈی نیشن پر کام کریں تاکہ ضلعی انتظامیہ آپس میں مل کر باہمی مشورے سے کام کرے۔

چیف سیکرٹری میجر (ر) اعظم سلیمان خان اور آئی جی پولیس شعیب دستگیر پنجاب میں انتظامی امور کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے اور صوبے کے انتظامی، مالی اور ترقیاتی کام بہتر ہو سکیں۔ چیف سیکرٹری چونکہ ہوم سیکرٹری پنجاب اور ایڈیشنل چیف سیکرٹری ہوم بھی رہ چکے ہیں لہٰذا انہیں پولیس کی ورکنگ کا بھی وسیع تجربہ ہے اور وہ پولیس اور انتظامیہ کو برابر بہتر کر سکتے ہیں، جیسا کہ گزشتہ روز کی آل پنجاب ڈی سی کانفرنس میں انہوں نے تمام سیکرٹریوں، کمشنرز اور تمام ڈی سیز کو یہ نصیحت کی کہ وہ ہر کام میرٹ پر کریں لیکن اپنے اخلاق کا دامن بالکل نہ چھوڑیں۔

 چیف سیکرٹری کو وزیر اعلیٰ کی جانب کی ایک نئی ٹیم بنانے کی بھی اجازت ملنی چاہئے ،جیسا کہ میاں شہباز شریف نے سابق چیف سیکرٹری جاوید محمود کو دی تھی۔ اب دیکھتے ہیں یہ پنجاب کی افسر شاہی کی نئی ٹیم کیا ڈلیوری دیتی ہے اور کیا آﺅٹ پٹ دیتی ہے اور کس طرح عوام کو ریلیف دیتی ہے۔

 بہر حال حکومت کو فوری طور پر نئے چیف سیکرٹری پنجاب اور نئے تعینات ہونیوالے آئی جی پولیس شعیب دستگیر کو ان کے کام کے معاملہ میں فری ہینڈ دینا چاہئے۔ اسی سے ہی بہتر نتائج مل سکیں گے اور پنجاب میں گڈگورننس یقینی بنے گی۔

مزیدخبریں