سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار آدا کر رہا ہے، مولانا فضل الرحمان

1 Apr, 2023 | 07:45 PM

Bilal Arshad

ویب ڈیسک:پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ  ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار آدا کر رہا ہے۔

تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں پنجاب اور کے پی کے عام انتخابات کی تاریخ کے تعین سے متعلق از خود نوٹس زیر سماعت ہے، انتخاب سے متعلق جو پہلا بینچ بنا تھا وہ 9 ممبران پر مشتمل تھا، نو اراکین پر مشتمل بینچ تین ممبرانِ کا رہ گیا۔

پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ جج صاحبان کی علیحدگی کے بعد فیصہ از خود نوٹس کے خلاف ہوگیا ہے،چیف جسٹس صاحب بزد ہے کہ اس کیس کو ہر قیمت پر سننا ہے، ایسی صورت حال میں سیاستدان ، پارلیمنٹ اور عوام کیا رائے قائم کرے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری نظر میں سپریم کورٹ اور موجودہ بینچ اس کیس میں واضح طور پر فریق کا کردار آدا کر رہا ہے، دو صوبوں میں انتخابات سے متعلق فریق کے کردار کے بعد ظاہر ہے ہمیں اس عدالت پر کوئی اعتماد نہیں رہا، چیف جسٹس صاحب ہو یا انکے ساتھ شریک دو معزز جج صاحبان کی جانبدارانہ روش نے سپریم کورٹ کو تسیم کردیا ہے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ حیرت اس بات پر ہے کہ عدالت عظمی پاکستان کا انتہائی قابل قدر اور بلند رتبہ ادارہ ہے، چند ججز واضح طور پر عمران خان کو ریلیف دینا چاہتے ہے، انکی پارٹی کے موقف کو ہر قیمت میں جتوانا چاہتے ہے،ایسی صورت میں سپریم کورٹ کو تقسیم کرنا گوارہ کیا ہے، لیکن جس کو سپورٹ کر رہے اس سے دستبردار نہیں ہورہے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اخلاقی طور پر چیف جسٹس کو اور انکے دو رفقاء کو اس کیس سے دستبردار ہو جانا چاہیے اور اس معاملہ کو ختم کرنا چاہیے، چیف جسٹس ہمیں نصیحت کر رہے کہ اس معاملہ کو مل بیٹھ کر حل کرنا چاہئیے اور خود چیف صاحب نے معزز عدالت کو تقسیم کردیا ہے ، ہم کس کے ساتھ بات کریں، ایک مجرم کے ساتھ جس کو دھاندلی کے زریعے لایا گیا تھا۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ ہم نے پندرہ ملین مارچ کیے آزادی مارچ کیے اس وقت اپکو احساس نہیں ہوا آپ نے از خود نوٹس کیو نہیں لیا ، 25 جولائی کی دھاندلی کے دو مرکزی مجرم آج بھی کھلے عام گھوم رہے آج بھی انکے خلاف آپ کوئی نوٹس نہیں لے رہے۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صوبوں میں انتخابات کروانا یا ملک میں انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، کس طرح اپ کسی ادارے کے انتظامی اختیار پر قبضہ کر رہے ہیں۔از خود نوٹس کیس چار اور تین سے مسترد ہوچکا ہے لہاذہ اس پر اب دوبارہ سماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہی، ہم اس بینچ پر اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس پر عدم اعتماد کرتے ہے۔
پی ڈی ایم سربراہ نے کہا کہ آج کہا جارہا آئین کا تقاضا ہے کہ 90 دن میں انتخابات کروائے جائیں، یہ آئین کا تقاضا اس وقت کیو نہیں تھا جب یہ عدالت ایک امر پرویز مشرف کو تین سال میں الیکشن کروانے کی اجازت دے رہا تھا۔اس وقت ملک میں مردم شماری ہورہی ہے، کچھ ماہ بعد نئی حلقہ بنایا، نئی ووٹر لسٹ اور نیا بننے والا ووٹر اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کرسکے گا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سیاسی لحاظ سے ملک کو ایک رکھنے کیلئے سن سنتالیس سے پاکستان میں الیکشن ایک دن میں ہوتے ہیں۔احتیاط سے کام لیا جائے ، فریق بن کر کردار نہ آدا کیا جائے، سپریم کورٹ کو متحد رہنے دیا جائے، سپریم کورٹ کو غیر جانبدار رہنے دیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم عمران خان کے ساتھ الیکشن کی تاریخ سے متعلق کسی قسم کے مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گے نہ ہی ہم کسی مجرم کے ساتھ مذاکرات کریں گے۔

مزیدخبریں